نوٹوں کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلا

 Money

Money

تحریر : روہیل اکبر

لاہور کے ضمنی الیکشن کا ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کہ اس الیکشن میں ووٹروں کا رجحان کم کیوں رہا اور کس نے کتنے ووٹ حاصل کیے مگر پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کرپشن زدہ اس الیکشن پر الیکشن کمیشن نے ایکشن کیوں نہیں لیا ووٹوں کی خریداری سے ثابت ہوگیا ہے کہ پیسے اور طاقت کے زور پر ووٹ خریدے جاتے ہیں اور ہمارا الیکشن کمیشن مکمل بے بس ہے اور ووٹرز کی دلچسپی بھی نوٹوں کی حد تک رہ گئی ہے اس بات کا میں خود چشم دید گواہ ہوں الیکشن سے چند دن پہلے میں اپنے دوست شیراز کے ہمراہ پاکستان عوام تحریک کے الیکشن آفس میں بیٹھا ہوا تھا یہ دفتر عوامی تحریک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کی حمایت میں کھول رکھا تھا جہاں کے تمام اخراجات پیپلز پارٹی والوں کے ذمہ تھے۔

میں یہاں تقریبا ایک گھنٹہ بیٹھا رہا اسی دوران تقریبا کوئی 50 کے قریب خواتین اور مرد اپنے شناختی کارڈ ہاتھوں میں پکڑے اپنے اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرنے آئے جنہیں عوامی تحریک لاہور کے صدر ڈاکٹر سلطان محمود نے بڑے پیار سے سمجھایا کہ یہ کام یہاں نہیں بلکہ اگلے انتخابی دفتر میں ہو رہا ہے مجھے میرے دوست شیراز نے بتایاکہ ووٹ بیچنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور دونوں پارٹیاں خرید رہی ہیں کیا الیکشن کمیشن سویا ہوا تھا یا ان کے پاس وسائل کی کمی تھی الیکشن سے پہلے ووٹوں کی خریداری کی ویڈیو منظر عام پر آچکی تھیں مگر کسی ادارے نے کچھ کیا اور نہ ہی کسی فرد نے سب آنکھیں بند کرکے تماشا دیکھتے رہے اور ووٹ بکتے رہے کیا یہی لوٹ گھسوٹ والا نظام ہمیں چاہیے جو لگائے گا پھر وہ مال بنائے گا بھی تو سہی کیونکہ اگلے الیکشن میں پھر خرچ کرنے پڑیں گے ایسے امیدواروں اور ایسی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا نظام درست ہو جائے گا۔

عوام کی تقدیر بدل جائیگی ووٹوں کی خریدوفروخت سے عام انسان کا الیکشن لڑنا تو دور کی بات ایسے ماحول میں وہ کاغذات بھی جمع نہیں کروسکتا یہاں پیسے والے،وڈیرے،سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں اور آج تک ہوتا بھی یہی رہا کبھی کوئی غریب اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا جب کوئی غریب الیکشن لڑ کر اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا تو پھر اسمبلی میں غریب کی بات کیسے ہوگی اور اسکو جینے کا حق کون لیکر دیگا غریب دن بدن غربت کی دلدل میں غرق ہوتا جائیگا اور سرمایہ دار اس پر حاوی رہے گا ایسے حالات میں تو غریب کی کبھی بھی حالت نہیں سدھرے گی اگر ہم نے اپنی حالت بدلنی ہے تو پھر کسی جھونپڑی والے کو جتوانا ہوگا کسی غریب رہڑھی والے کو ووٹ ڈالنا پڑے گا اور کسی غریب محنت مزدوری کرنے والے کو اپنا ووٹ دینا پڑیگا جو اسمبلی میں جاکر اپنے جیسوں کے حق کی بات کرے یہاں پر تو سبھی سرمایہ دار ہیں جو اپنے جیسوں کا تحفظ کرینگے۔

دو دو ہزار میں خریدے گئے ووٹ اسمبلی میں جاکر کیا گل کھلائیں گے شائد اس بات کا اندازہ ان غریبوں کو کبھی بھی نہیں ہوسکے گا آئے روز کی خودکشیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ خریدوفروخت کے ماہر کاریگروں نے ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک کرکے اپنے بچوں کا مستقبل بیرون ملک خوشحال بنا رکھا ہے یہاں سے چوری کیا ہوا پیسہ یورپی ممالک میں سنبھال رکھا ہے پاکستان میں تو وہ صرف عیاشیاں کرنے آتے ہیں اس ضمنی الیکشن میں ووٹر اپنے گھر سے نہیں نکلا صرف وہی نکلے جن کے مفادات ان سے وابستہ تھے اس الیکشن کی صورتحال پر اگرنظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 لاہور کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ(ن) کی امیدوار شائستہ پرویز ملک نے 46 ہزار 811 ووٹ حاصل کرکے فتح حاصل کر لی جب کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل 32ہزار 313 ووٹ لے کر دوسر ے نمبر پر رہے گیارہ میں سے نو امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔

مذکورہ نشست مسلم لیگ ن کے پرویز ملک کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی شائستہ پرویز ملک مسلم لیگ کے مرحوم رہنما پرویز ملک کی اہلیہ ہیں اسی حلقہ سے جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد حلقے میں پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں ہے۔ن لیگ کو ضمنی انتخاب میں این اے 133کی نشست پر 2018 کے الیکشن کے مقابلے میں 42ہزار888ووٹ کم ملے اسی حلقہ سے پرویز ملک نے 89 ہزار699 ووٹ لیے تھے۔پیپلزپارٹی کے اسلم گل نے 2018 کے انتخابات کے مقابلے میں 26 ہزار 728 ووٹ زیادہ حاصل کیے انہوں نے 2018 کے الیکشن میں 5585 ووٹ لیے تھے۔

2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے اعجازچوہدری نے77ہزار293ووٹ لیے تھے۔2018کے عام انتخابات میں این اے133میں 51.89 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے تھے اور اب 18.59 فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں اتنے کم لوگ باہر نکلے کہ صرف دو امیدواروں کو ہی ووٹ پڑے اور باقی بیچارے ووٹرز کا منہ ہی دیکھتے رہے ان میں سے اکثر غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تھے ووٹ نہ خرید سکے اور انکی ضمانتیں بھی ضبط ہو گئی ایسے حالات میں عام عادمی الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اسی مناسبت سے ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے ایک بڑی ہی خوبصور بات کہی کہ این اے 133 میں نوٹوں کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلا کروڑو روپے خرچ کیے گئے الیکشن کو دو دو ہزار میں خریدا گیا جنہیں پیسے دئیے گئے وہ بھی باہر نہیں نکلے اس انتخاب کا پوسٹ مارٹم پہلے ہی ہو چکا تھا گذشتہ روز اس کا عملی ثبوت بھی سب نے دیکھ لیا یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں موجودہ سسٹم میں تبدیلی نہیں چاہتے اس الیکشن میں انتخابی عمل کے دوران پنجاب حکومت کے انتظامات مثالی رہے آخر میں سیالکوٹ واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارکا کہنا ہے کہ انشاء اللہ اس کیس کو بھی منطقی انجام تک پہنچایاجائے گا یہ واقعہ انسانیت پر بدنما داغ ہے جس میں ملوث ملزمان قانون کے مطابق عبرتناک سزا کے مستحق ہیں حکومت انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ظالموں کو قرار واقعی سزا دلائے گی اس واقعہ پر قوم کے دل زخمی ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر