30نومبر کو کیا ہو گا؟

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : ایم ایم علی
ملک میں دن بدن سردی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ سیاسی میدان دن بدن گرم ہوتا جارہا ہے ۔14اگست سے شروع ہو نے والی احتجاجی تحریک ایک بار پھر زور پکڑتی دیکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف ، عوامی تحریک، مسلم لیگ (ق)اور جماعت اسلامی ملک بھر میں جلسے کر رہی ہیں۔ ڈاکڑ طاہر القادری صاحب کی کینڈا یاترا کی وجہ سے عوامی تحریک کے جلسوں کا جو تسلسل ٹوٹا تھا وہ ان کی وطن واپسی کے بعد دوبارہ شروع ہو چکا ہے ۔ان دنوں سیاسی افق پر جلسوں کی بہار نظر آتی ہے ،البتہ پیپلز پارٹی کراچی کے جلسے بعد خاموش دیکھائی دیتی ہے ،اس کی ایک وجہ تو یہ بھی نظر آتی کہ کراچی جلسے میں پیپلز پارٹی وہ عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی جس کی توقع وہ کر رہی تھی ۔بہر حال اس وقت تمام نظریں 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے پر لگی ہوئی ہیںاور یہ سوال زدعام ہے کہ 30 نومبر کو کیا ہو گا۔

یہ جلسہ تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے بہت اہمیت کا حامل ہے ، عمران خان صاحب کہہ تو رہے ہیں کہ اگر حکومت نے 30 نومبر کے جلسے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور اگر یہ جلسہ نہ کرنے دیا گیا تو وہ اگلے ہفتے دوبار اس جلسے کی کال دے دیں گے۔لیکن حقیقت یہ کہ اس وقت تحریک انصاف کو وقت کم اور مقابلہ سخت والی صورت حال کا سامنا ہے ۔کیونکہ ملک میں سردی کی آمد ہے اور اب رات کو دھرنہ دینا اور جلسے کرنا کسی بھی جماعت کیلئے آسان نہیں ہو گا ۔14اگست کے بعد تحریک انصاف اور عوامی تحریک حکومت پر جو دبائو ڈالنے میں کامیاب ہو ئی تھیں حکومت اب اس دبائو سے کافی حد تک باہر آچکی ہے اور اب یہ پریشر آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے اپنے اوپر پڑتا جا رہا ہے ۔اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ 100دنوں سے زائد اور ملک کا طویل ترین احتجاج کرنے کے با وجود تحریک انصاف ابھی تک حکومت سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں منوا سکی ۔14اگست کے بعد جب حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذکرات شروع ہوئے تو حکومت کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ حکومت نے تحریک انصاف کے چھ میں سے پانچ مطالبات مان لیے ہیں۔

عمران خان خود بھی اس بات کا اظہار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ حکومت ان کے پانچ مطالبات مان چکی ہے لیکن وہ وزیر اعظم کا استعفی لیے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے ،حالانکہ اس وقت حکومت پر جو دبائو تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں سے بن چکا تھا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف اپنے سب مطالبات نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ مطالبات ضرور منوا سکتی تھی ۔لیکن عمران خان صاحب کسی بھی صورت میں وزیر اعظم صاحب کے استعفی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے ،دوسری طرف حکومت کسی بھی صورت وزیراعظم کا استعفی دینے کو تیار نہیں تھی اور حکومت پارلیمنٹ میں موجود تقریبا سب جماعتوں کو وزیراعظم کا استعفی نہ دینے کے حوالے سے اعتماد میں لے کر اپنا ہمنوا بنا چکی تھی ۔جاوید ہاشمی صاحب کی تحریک انصاف سے بغاوت اور بعد میں ان کی طرف سے ایک دھواں دار پریس کانفرنس نے حالات یکسر تبدیل کر کے رکھ دئیے ،کہا جاسکتا ہے کہ اس دن سے حکومت کا پلڑا بھاری ہونا شروع ہو گیا تھا۔

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

اس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اچانک دھرنہ ختم کر دینے سے بھی حکومت پر سے مذید دبائو کم ہوگیا ۔ کیونکہ افردی قوت کے حساب سے عوامی تحریک کا دھرنہ تحریک انصاف کے دھرنے سے قدرے بڑا اور منظم تھا۔ اب حکومت پر ایک دفعہ پھر دبائو بڑھا کر حکومت کو دوبارہ مذکرات کی میز پرلانے اوراپنے مطالبات منوانے کیلئے تحریک انصاف کو 30 نومبر کو اسلام آباد میںنہ صرف جلسہ کامیاب بنانا ہو گا بلکہ عوام کی بھی ایک بڑی تعداد کو اسلام آبا د لانا ہو گا۔ویسے تو تحریک انصاف کے جلسے کافی بڑے ہوتے ہیں لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہو گااور یہا ں لوگوں کی بڑی تعداد کو اکھٹا کر پانا تحریک انصاف کیلئے اتنا آسان نہیں ہو گا، کیونکہ حکومت بھی اس اس جلسے کو ناکام بنانے کی پوری تیاری کر چکی ہے اور حکومت پوری کوشش کرے گی کہ عوام کی کم سے کم تعداد اس جلسے میں پہنچ سکے ۔اس جلسے سے نمٹنے کیلئے حکومتی مشینری پوری طرح حرکت میں آچکی ہے اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور اسلام آباد کی شاہرہوں پر کنٹینر رکھنے کی خبریں بھی آ رہی ہیں ،لیکن دوسری طرف تحریک انصاف اس جلسے کو کامیاب بنانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے ، اس سلسلے میں عمران خان وقتا فوقتا اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کر رہے ہیںاور ملک بھر سے کارکنوں کو 30نومبر کو اسلام آباد پہنچنے اور اپنے کار کنوں کو حکومتی مشینری سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی تلقین کر رہیں۔

اس وقت دونوںا طرف سے، تلخی اپنے عروج پر ہے ،30نومبر کو حکومت اور تحریک انصاف میں تصادم کا خطرہ بھی موجود ہے جو خدانخوسطہ کسی بڑے سانحہ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔خان صاحب نے 28 نومبر کو ایک اہم پریس کانفرنس کا اعلان بھی کر رکھا ہے جس میں بقول ان کے وہ 2013کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے اہم انکشافات کریں گے اور ثبوت پیش کریں گے۔عمران خان صاحب ہر دفعہ کسی بڑے احتجاج سے پہلے اس طرح کی پریس کانفرنس کرتے ہیں لیکن اس بار دیکھانا یہ ہو گا کہ اس پریس کانفرنس میں کچھ نیا ہو تا ہے یا پھر وہی راویتی پریس کانفرنس کرتے ہیں ۔قارئین،فرض کریں کہ کہ تحریک انصاف کا 30 نومبر کا جلسہ انتہائی کامیاب ہو جاتا ہے تحریک انصاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جلسے میں لانے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔

جیسا کہ عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ وہ 30نومبر کے بعد ایک ہفتے کا ٹائم دیں گے اگر اس ہفتے کے بعد بھی ان کے مطالبات نہ مانیں گئے تو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔یقیناوہ اس لائحہ عمل کا اعلان 30 نومبر کے جلسے میں اپنی تقریر میں کریں گے ۔!جو متوقع طور پر پہیہ جام اور شٹر ڈون ہڑتال کی کال ہو سکتی ہے لیکن بادی النظر میں اگر اس طرح کی کوئی کال دی گئی تو اس کا حشر بھی سول نافرمانی کی کال جیسا ہو گا۔اگر خان صاحب دھرنے اور جلسے جاری رکھنے کا اعلان بھی کرتے ہیں تو دن بدن بڑھتی ہو ئی سردی کے پیش نظر یہ بھی اب اتنا آسان نہیں ہو گا ۔بہر حال اب دیکھنایہ ہے کہ 30 نومبر کو عمران خان صاحب کسی موثر احتجاجی حکمت عملی کا اعلان کر پاتے ہیں ، کیا وہ کچھ نیا کرتے ہیں؟ یا پھر وہی پرانی باتیں اور روایتی تقریر کرتے ہیں۔

Muhammad Ali

Muhammad Ali

تحریر : ایم ایم علی