معاشرتی گیراوٹ کا شکار ہمارا معاشرہ

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 66 سال ہو چکے ہیں۔ اتنے عرصے میں یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں اگر ترقی ہوئی ہے تو صرف منافقت جھوٹ کرپشن اور مذہبی صوبائی اور لسانی تعصبات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی میں ہی ہوئی ہے۔ پہلے اکا دکا بم دھماکے سننے کو ملتے تھے مگر کچھ عرصہ سے تو یہ افسوس ناک صورتحال ہے کہ چندن امن سے گزرتے ہیں کہ پھر کسی نہ کسی شہر سے افسوس ناک خبر سننے کو مل جاتی ہے۔

کہنے کو یہاں جمہوریت ہے مگر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے نا جان اور ناہی مال اور تو اور اس نام نہاد جمہورت نے عوام کو غریب سے غریب اور امیر کو امیر تر بنا دیا ہے، مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یوٹلیٹی بلوں میں ہوش ربا حد تک ضافہ ہو چکا ہے۔” عوامی حکومت” کی گردان تو مسلسل آلاپی جاتی رہی ہے، مگر دیکھا جائے تو اسی عوامی حکومتوں نے اپنی ہی عوام کا بری طرح استحصال کیا ہوا ہے پتہ نہیں شاید اسی کو عوام پر حکومت کرنا کہتے ہوں۔

کہتے تو یہ بھی ہیں کہ جمہوریت کتنی ہی بری کیوں نہ ہو آمریت، بادشاہت اور مارشل لاء سے ہزار درجہ بہتر ہے، اس عظیم مقولے کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ سنتے تھے کہ جو چیز بری ہے وہ بری ہی ہوتی ہے اس کو اچھا کیسے کہا جا سکتا ہے، ایک چور خواہ اس واسطے چوری کرے کہ میں اپنا چوری کا مال غریبوں میں بانٹ دوں گا تو کیا اس کا یہ فعل قابل تحسین ہوگا۔

اگر حکومتی فوائد عوامی سطح تک پہنچ رہے ہوں، ملک ترقی کی جانب گامز ن ہو تو پھر کوئی سی بھی حکومت ہو وہ بہترین حکومت ہی ہو گی، کم از کم پاکستان میں مجھے ایسا ہوتا ہوا کبھی نظر نہیں آیا جس کو جب موقع ملا اس نے حکومتی مال کو قارون کا خزانہ سمجھ کے خوب لوٹا، تو پھر ہم کس بات کا یوم جمہوریت منا رہے ہیں۔
جہاں پاکستانی سیاست بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہیں وہیں پر اگر ہم اپنے معاشرے کی اخلاقی قدروں کی بات کریں تو حد درجہ مایوسی ہی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ یہاں پر لسانی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی طور پر ہم مسلسل متصبانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

کسی کی زرا سی بات بھی اگر ہماری سوچ سے ٹکراتی ہے تو ہم نہ صرف بری طرح اس کو جھٹک دیتے ہیں ، بلکہ یہاں تک کہ قوت برداشت نہ ہونے کے سبب گالیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع کر دیتے ہیں۔اس کی مثال ہمیں روزانہ ہی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہے۔

وہ ادارے جو اصلاح معاشرہ کے لئے انتہائی ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں افسوس کے وہی ادارے ملک میں فحاشی اور جھوٹ کا پرچار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان اداروں میں الا ماشاء اللہ پاکستانی چینل اور سوشل میڈیا سرفہرست ہے۔ ہمارے مولوی صاحبان اگر چاہیں تو وہ بھی اصلاح معاشرہ میںایک کلیدی کر دار ادا کر سکتے تھے، مگر سوائے چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر علماء نے اپنا یہ فریضہ کما حقہ ادا نہیں کیا۔ تبھی تو آج معاشرے میں بے حسی قوت برداشت کی کمی اور سچائی کا فقدان ہے۔ جب ایک جانے مانے مولوی صاحب کرپشن میں ملوث پائے جاتے ہیں تو زرا سوچیں کہ کس طرح اس کا معاشرے پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔

Social Media

Social Media

سادہ لوح عوام کی سوچ اور ان کے ذہن کو کس طرح میڈیا نے تبدیل کرنا شروع کیا اس کی سب سے بڑی مثال صبح کی نشریات میں دکھائے جانے والے پروگرام ہیں جن میں ایک تسلسل کے ساتھ جنوں پر ایسے ایسے پروگرام ڈرامائی انداز میں پیش کئے گئے کہ زیادہ تر عوام اس کے دھوکے میں آتے چلے گئے۔ ساتھ ہی معاشرے میں پھیلی ہوئی ضعیف العتقادی نے بھی خوب کام دکھائے۔

یوں اللہ تعالی کی عبادت کرنے اور اس سے مانگنے کی بجائے عوام کی ایک کسیر تعداد جعلی پیروں فقیروں پر اعتماد کرنے لگی ،یوں ان کا کاروبار خوب چل نکال۔وہ تو بھلا ہو حسب حال کی ٹیم کا کہ اس نے ملک کے ایک نام نہاد نامور عامل اور عالم صاحب کو سرعام بے نقاب کر کے رکھ دیا۔

اس حقیقت کو جان لینے کے بعداس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں کہ ان جیسے جھوٹے عاملوں اور عالموں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ان کے جھو ٹے کاروبار کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے ۔اس لئے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے جب ہم اللہ کے سوا کسی اور سے مدد طلب کرتے ہیں تو وہ اس قدر گناہ ہے کہ شرک کی حد تک پہنچ جاتا ہے ۔جس کی کوئی توبہ اور معافی بھی نہیں ہے۔

ضرورت تو اس امرکی بھی ہے کہ جس نے بھی ٹیلی ویثزن پر ایسے پروگرام ڈرامائی انداز میں پیش کئے ان کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے ،پوری قوم سے انہوں نے نہ صرف جھوٹ بولا بلکہ ان کے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچایا۔ شائستہ واحدی۔ مایا خان۔ ساحر لودھی اس سارے معاملے میں پیش پیش رہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس قدر منافقت کا شکار ہیں ۔مہنگے سے مہنگا لباس جو کہ جدید فیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ پہن کرسادگی کا یوں درس دیتے ہیں کہ غیریب اپنے چیتھڑے والے کپڑوں میں بھی خود کو برہنہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اب آخر میں اس درد ناک واقعہ کا ذکر ہو جائے جس نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو ہلا کر رکھ دیا ،لاہور میں ایک درندہ صفت انسان نے معصوم ہنستی کھیلتی کلی کو اپنی ہوس کی خاطر مسل کے رکھ دیا اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو پل بھر میں چھین لیا ،جب بھارت جیسے ملک میں طالبہ کی عزت لوٹنے والے چار درندہ صفت افراد کو سزائے موت دی جاسکتی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیوں ایسے مجرموں کو سر عام پھانسی پر نہیں لٹکایا جاسکتا۔

اگر سزا کے اس عمل کی صرف ایک دفعہ پوری طرح سے تکمیل ہوجائے تو کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ ایسے گھنائونے فعل کا کبھی سوچے گا۔ مگر جس ملک میں دہشت گردوں کو پکڑ کر چھوڑ دیا جائے یا جہاں خطرناک مجرم قانون نافظ کرنے والوں کے اپنے ہی چند بے ضمیر پولیس والوں کی ملی بھگت سے با آسانی چھڑا لئے جاتے ہوں یا قتل کے مجرم باوجود سزا پانے کے معاف کر دیئے جاتے ہوں وہاں ان سزائوں پر عمل درآ مدکسی معجزے سے کم نہیں ہوگا اور شاید اب پاکستانی قوم کسی معجزے کے انتظار میں ہی ہے۔

Maryam Samaar

Maryam Samaar

تحریر : مریم ثمر