پاکستان افغانستان کی مدد کے لیے مسلم ممالک کو اکٹھا کرے گا

OIC

OIC

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانستان میں معاشی اور انسانی تباہی کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب پاکستان ایسے تمام مسلم ممالک کو اکٹھا کرنا چاہتا ہے، جو افغان عوام کی مدد کے ساتھ ساتھ طالبان کے بیرون ملک تشخص میں بہتری لا سکیں۔

اسلامی تعاون کی ستاون رکنی تنظیم (او آئی سی) کے کئی وزرائے خارجہ آج اتوار کو اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کی مدد کرنے کے طریقے تلاش کیے جا سکیں۔ طالبان اقتدار میں تو آ گئے ہیں لیکن انہیں اقتدار میں آنے کے بعد مشکل صورتحال اور حقائق کا سامنا ہے۔

تاہم پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ او آئی سی کی میٹنگ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق اتوار کے اجلاس میں یہ پیغام دیا جائے گا، ”براہ مہربانی افغانستان کو تنہا مت چھوڑیں، اس کے ساتھ روابط قائم رکھیں۔ ہم افغان عوام کی بات کر رہے ہیں، کسی خاص ایک گروپ کے لیے نہیں،صرف ہم افغان عوام کی بات کر رہے ہیں۔‘‘

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا، روس، چین اور یورپی یونین سمیت بڑی طاقتیں اس ایک روزہ اجلاس میں اپنے خصوصی نمائندے بھیجیں گی۔ اسی طرح طالبان کے مقرر کردہ وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی اس کانفرنس میں شریک ہوں گے۔

او آئی سی کو مسم ممالک کی تنظیم ہونے کی وجہ سے فائدہ حاصل ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق یہ تنظیم طالبان کی مدد بھی کر سکتی ہے جبکہ یہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں کے حوالے سے طالبان پر دباؤ بھی بڑھا سکتی ہے۔

واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ او آئی سی ممالک افغانستان میں کافی کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ مسلم ممالک اپنے مذہبی اسکالرز کے ذریعے کام کریں اور طالبان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہیں۔

مائیکل کوگل مین کے مطابق مغربی ممالک کے لیے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہے اور ان کے لیے یاددہانی بھی ہے کہ وہ بیس سالہ جنگ میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں، ’’طالبان نے مغرب کو شکست دی، ان کی طاقتور افواج کو ہرایا اور آخرکار ان کی افراتفری میں ذلت آمیز طریقے سے روانگی ہوئی۔ طالبان کے ساتھ میز پر بیٹھنے سے اس شکست کو مزید قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس ملک کو شدید مالی مسائل کا سامنا ہے جبکہ خراب ہوتے ہوئے حالات کی وجہ سے وہاں انسانی المیہ بھی جنم لے رہا ہے۔ اس ملک کو ملنے والی بین الاقوامی امداد بند ہو چکی ہے جبکہ بیرون ملک موجود اربوں ڈالر کے اثاثے امریکا نے منجمد کر رکھے ہیں۔

عالمی برادری طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کرنے سے پہلے کسی ایسی حکومت کی تشکیل کا انتظار کر رہی ہے، جس میں خواتین سمیت تمام اقلیتوں کی نمائندگی موجود ہو۔ طالبان نے متعدد حوالوں سے یقین دہانی کروائی ہے لیکن مغربی ممالک اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان بیس برس پہلے جیسے سخت قوانین متعارف کروا سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے نیوز ایجنسی اے پی کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان وزیر خارجہ متقی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت لڑکیوں کی تعلیم اور افرادئ قوت کے لیے خواتین کے حوالے سے پرعزم ہے۔ چار مہینے گزرنے کے باوجود متعدد افغان صوبوں میں لڑکیوں کو ہائی سکول جانے کی اجازت فراہم نہیں کی گئی ہے۔ صحت کے شعبے میں خواتین واپس آ چکی ہیں لیکن کئی دیگر سول شعبوں میں ابھی تک خواتین کو واپس ملازمت پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔

تاہم طالبان کے آنے سے ملک کے سکیورٹی حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ ایک امدادی اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ امدادی تنظیمیوں کو اب ان علاقوں تک بھی رسائی حاصل ہے، جہاں وہ پہلے نہیں جا سکتی تھیں اور جو جنگ زدہ حالات کی وجہ سے کٹ کر رہ گئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان اور اس کے 38 ملین افراد کو انسانی بحران کا سامنا ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے، 95 فیصد تک گھرانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ غربت کی سطح 90 فیصد تک پہنچنے والی ہے اور ملکی کرنسی کی قدر زوال پذیر ہے۔

افغانستان کی مدد کرنے کے لیے پاکستان دنیا پر دباؤ ڈالنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے مطابق انہوں نے امریکا سمیت تمام بڑے مغربی ممالک کے وزرائے خارجہ کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی مکمل تباہی سے دہشت گردی کے خلاف کی گئیں تمام تر کوششیں ضائع ہو جائیں گی اور افغانستان سے بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

انہوں نے یورپی ممالک کو بھی خبردار کر رکھا ہے کہ افغانستان سے نکلنے والے مہاجرین ہمسایہ ممالک میں رہنے کی بجائے امیر ممالک کی طرف رخ کریں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق اگر افغانستان میں افراتفری پھیلتی ہے تو القاعدہ اور داعش جیسے گروہ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔