پاکستان میں تنقیدی سوچ کو دبایا جا رہا ہے

Protest

Protest

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت مخالف نظریات کے حامل متعدد لبرل اساتذہ اور دانشوروں کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں ’ملازمت سے برخاست‘ کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان کو انسانی حقوق کے لیے سرگرم حلقے پاکستان میں تنقیدی سوچ کی تنزلی قرار دے رہے ہیں۔

پاکستانی پروفیسر عمار علی جان نے حال ہی میں ٹویٹر پر کہا تھا کہ وہ لاہور کی فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی (ایف سی سی) سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں، جہاں وہ پولیٹیکل سائنس کی تعلیم دیتے تھے۔

عمار علی جان ایک مقبول ترقی پسند اسکالر ہیں، جو سماجی اور سیاسی تحریکوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ وہ شورش زدہ صوبے بلوچستان میں فوجی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ جان پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی حمایت بھی کرتے ہیں۔

جان نے بتایا کہ اسٹوڈنس کے مظاہروں میں حصہ لینے کے نتیجے میں حکومت نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا۔ ان کے بقول، ’’یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے ان سرگرمیوں سے دور رہنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو وہ میرے خلاف کارروائی کریں گے۔‘‘ جان نے مزید بتایا کہ پاکستان میں حکام کی جانب سے تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ ان کے مؤقف کی پیروی کی جاسکے۔

پروفیسر عمار جان کا دعوی ہے کہ ملک کی طاقتور فوج سویلین اداروں پر اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

واضح رہے اس معاملے پر فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ڈی ڈبلیو کو اپنا موقف بیان کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اگست 2018ء میں وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی، خاص طور پر آزادی صحافت پر دباؤ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل کارکنان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم خان کی حکومت کے دوران ملکی فوج نے اپنی طاقت کو مزید مستحکم کیا ہے۔

پاکستانی میڈیا اور کارکنوں کے مطابق، ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر طبیعیات، پرویز ہود بھائی کو بھی فارمین کرسچن کالج یونیورسٹی نے بتایا کہ آئندہ سال ان کی ملازمت کے کانٹریکٹ میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ ہود بھائی مذہبی قدامت پسندی اور ریاست کی عسکریت پسندی کے خلاف اپنے سخت خیالات کے اظہار کے لیے جانے جاتے ہیں۔

دوسری جانب عمار جان کی ٹویٹ نے ملک میں دیگر سیکولر دانشوروں کو بھی علمی آزادی پر روک تھام کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیا۔ لاہور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں سن 2015 سے رواں سال فروری تک درس و تدریس سے منسلک ضیغم عباس کو بھی ان کے سیاسی نظریات کے اظہار کی بنیاد پر نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تعلیمی ادارے بہت تیزی سے ایسے اساتذہ کو ملازمت سے نکال رہے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’ریاست آزاد خیال اساتذہ اور دانشوروں سے خطرہ محسوس کرتی ہے۔‘‘

اسلام آباد حکومت اور ملٹری ادارے ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ وزیر اعظم خان کے مطابق پاکستان میں میڈیا بالکل آزاد ہے۔ حکومت کے بعض حامیوں کا خیال ہے کہ سیکولر کارکن پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور انہیں لگام دیا جانا چاہیے۔ سابق فوجی اہلکار اور دفاعی تجزیہ کار اعجاز اعوان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اس تمام معاملے میں فوج کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا ان اکیڈمکس کے کانٹریکٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی برطرف ہوا ہے تو کانٹریکٹ کے شرائط و ضوبط کی وجہ سے ہوا ہو گا۔ دفاعی تجزیہ کار نے مزید کہا، ’’فوج کو ہر چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے‘‘۔

ایک اور ریٹائرڈ فوجی افسر غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ جان جیسے لوگ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا ایک مسخ شدہ نظریہ پیش کر رہے ہیں۔ مصطفیٰ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ ماہرین تعلیم فوج مخالف پروپیگنڈے میں ملوث ہیں اور فوج کا ان کے کانٹریکٹس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ماہرین تعلیم کو سیاسی سرگرمیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ’’ان کا کام سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا نہیں بلکہ پڑھانا ہے۔‘‘