پاکستان کا استحکام نظریہ پاکستان

Pakistan

Pakistan

پاکستان دنیا کا واحدوہ ملک ہے جو نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور وطن عزیز کے حصول کے لئے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔1930 میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں بر صغیر کی تقسیم کے حق میں قرار داد پاس کر لی۔ قائد اعظم بھی 1930 میں علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی جدو جہد کا فیصلہ کر چکے تھے۔1940 تک قائد اعظم نے رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کر لیا۔23 مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرار داد منظور کی جس کے مطابق مسلمانان ہند انگریزوں سے آزادی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں سے بھی علیحدہ ریاست چاہتے تھے۔

نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور دوسرے سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، کلچر اور روایات سے بالکل مختلف ہے۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیالیکن موجودہ دور میں نظریہ پاکستان کو یکسر بھلا کر اس ملک کو سیکولر بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔جس ہندو سے مسلمانوں نے الگ وطن حاصل کیا تھا اسی ہندو ملک انڈیا کے ساتھ حکومت دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔

پنجاب سے کبڈی میچ کی ٹیمیں انڈیا جا کر کھیلتی ہیں اور انڈیا کی پنجاب میں آتی ہیں۔مختلف وفود کی آمدورفت ہوتی ہے،انڈیا جو پاکستان کے دریائوں پر ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روک رہا ہے اور اسی پانی سے بنائی گئی بجلی پاکستان کو فروخت کرنا چاہتا ہے حکومت معاہدے کرنے کے لئے تیار ہے۔لیکن پاکستانی قوم یہ سب کچھ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔انڈیا نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس ملک کے خلاف خوفناک سازشیں کیں۔پرویگنڈے کر کے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف دہشت گردی و تخریب کاری کے ذریعے وطن عزیز کو عدم استحکام سے دو چار کیا گیا۔ایسے حالات میں جب کلمہ کے نام پر بنائے گئے ملک کو سیکولر بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔

جماعة الدعوة پاکستان نے 23مارچ کو ملک گیر سطح پر احیائے نظریہ پاکستا ن کانفرنسز کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جو یقینی طور پر جماعة الدعوة کے محب وطن ہونے کا ثبوت ہے۔ حافظ محمد سعید کی ہدایات پر یکم مارچ سے لاہور سمیت پورے ملک میں جلسوں، کانفرنسوں اور تربیتی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔ لاہور سمیت پورے ملک بھی 23مارچ تک روزانہ کی بنیاد پر مساجدومدارس، چوکوں و چوراہوں اور دیگر پبلک مقامات پر نظریہ پاکستان کانفرنسوں کا انعقاد کیاجائے گا جن میں جماعةالدعوة کے علاوہ دیگر مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین خطاب کریں گے جبکہ 23مارچ کو یوم پاکستان کے موقع پر سب سے بڑا پروگرام مینار پاکستان سے مسجد شہداء تک تحفظ نظر یہ پاکستان مارچ ہو گا جس میں لاکھوں افراد شریک ہوں گے۔ تحفظ نظریہ پاکستان مارچ کا آغاز مینار پاکستان سے ہو گابعد ازاں مسجد شہداء پہنچ کر تاریخی جلسہ عام کا انعقاد کیاجائے گا۔ جماعة الدعوةتویہ کام کر رہی ہے دیگر جماعتوں و حکومت کو بھی نظریہ پاکستان جسے نوجوان نسل کے ذہنوں سے نکالنے کی سازش کی جا رہی ہے کے حوالہ سے پروگرامات کا انعقاد کرنا چاہئے کیونکہ نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی اساس،پہچان اور استحکام کی ضمانت ہے۔پاکستان کے 1973ء کے آئین میں یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان کا صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور تمام ممبران اسمبلی جب اپنے عہدہ پر فائز ہوتے ہیں تو حلف اٹھاتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل الفاظ شامل ہیں جو آرٹیکل (2),(4)ـ53,91,42 اور 61ـ65 کے مطابق شیڈول نمبر 3میں درج ہے۔ ”میں اسلامی نظریے کا تحفظ کروں گا جو کہ پاکستان کی تخلیق کی بنیاد ہے”مندرجہ بالا حلف کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام عہدیدار اور ارکان مجالس قانون ساز اسلامی نظریے کے پابند ہیں اور کوئی ایسا عمل نہیں کر سکتے ہیں جو اسلامی نظریہ کے منافی ہو۔”اسلام اس مملکت کا سرکاری مذہب ہے” اور اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ اس مملکت کا کوئی صاحب اختیار کوئی ایساحکم نافذ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی ایسا عمل کر سکتا ہے جو اسلام کے منافی ہے۔

Supreme Court

Supreme Court

سپریم کورٹ ہمارے ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت ہے جس کے فیصلہ کی پابندی پاکستان کے ہر شہری اور صاحب اختیار پر لازم ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ سٹیٹ بنام ضیاالرحمن میں نظریہ پاکستان کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اس مقصد کی سماعت مندرجہ ذیل جج صاحبان نے کی تھی اور یہ متفقہ فیصلہ تھا۔(1) چیف جسٹس حمود الرحمن (2) جسٹس ایس انوار الحق (3) جسٹس محمد یعقوب احمد (4) جسٹس وحید الدین احمد (5) جسٹس صلاح الدین احمد۔ سٹیٹ بنام ضیاء الرحمن پی ایل ڈی 1973ء سپریم کورٹ صفحہ 49 صفحہ 72ـ73 پر درج ہے:”پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اس کا نظریہ 7مارچ 1949ء کی قرار داد مقاصد میں درج ہے جسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا جس میں منجملہ دیگر امور کے اعلان کیاگیا ہے کہ مسلمان اس مملکت میں اجتماعی اور انفرادی معاملات میں اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق عمل کرنے لگے جو قرآن و سنت میں درج ہے”۔ اس مقدمہ میں صفحہ 73 پر جسٹس سجاد احمد جان کے سابقہ فیصلہ کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:۔”مملکت پاکستان ایک اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں لائی گئی تھی اور یہ لازماً اسی نظریے کی بنیاد پر چلائی جائے گی۔

ماسوائے اس کے کہ خدانخواستہ اس کی تشکیل ہی از سر نو کی جائے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان ختم ہو گیا۔ قرار داد مقاصد کوئی محض ضابطے کا دیباچہ نہیں ہے۔ بلکہ اس میں پاکستان کی روح اور بنیادی قوانین اور آئینی تصورات محفوظ ہیں”۔چونکہ اس فیصلہ میں درج ہے کہ نظریہ پاکستان کا اندراج قرار داد مقاصد میں درج ہے۔ سادہ اور صاف الفاظ میں نظریہ پاکستان دراصل نظریہ اسلام ہے اور پاکستان کی حکومت اور عوام تمام ہی قرآن و سنت رسول یعنی اسلامی نظام کے پابند ہیں۔نظریہ پاکستان دراصل دو قومی نظریہ ہے جو پاکستان کی بنیاد ہے یعنی اسی نیم براعظم ہند میں ہندو اور مسلمان ایک نہیں الگ الگ قوم تھے۔ ہیں اور رہیںگے۔نظریہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کے خیالات اور تصورات بالکل صاف اور واضح تھے۔ اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کے دوران آپ نے نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور تصورات کی اس طرح وضاحت کی۔ ”پاکستان کے لئے ہمارا مطالبہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلامی اصولوں پر مبنی نظام پر عمل درآمد کرسکیں۔اجلاس میں قائداعظم نے اسلامی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی اس طرح وضاحت کی۔ ”ہندومت اور اسلام صرف دو مذاہب نہیں بلکہ یہ دو معاشرتی نظام ہیں اور یہ سوچنا کہ ہندو اور مسلم مل کر ایک مشترکہ قوم بن سکتے ہیں صرف خواب ہوگا۔

میں کھل کر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دونوں اقوام دو مختلف تہذیبوں سے وابستہ ہیں اور ان دونوں تہذیبوں کی بنیادیں ان فلسفوں پر رکھی گئی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔” جنوری 1941ء میں قائداعظم نے مسلم قومیت کے علیحدہ تشخص کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ”ہندوستان کبھی بھی ایک ملک یا ایک قوم نہیں رہا۔ برصغیر کا معاملہ بین الاقوامی ہے۔تہذیب، ثقافت، معیشت اور معاشرتی اقدار کے اختلافات نظریاتی نوعیت کے ہیں۔”

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472