پاکستان کے اصل دشمن؟

Dollar

Dollar

تحریر : واٹسن سلیم گل

مجھے آج تک یہ سمجھ نہی آئ کہ پاکستان کا اصل دشمن کون ہے۔ سنتے چلے آئے کہ پاکستان میں کوئ بھی غلط کام ہو اس کے پیچھے امریکہ کی سازش ہوتی ہے۔ یا پھر یہود، ہنود اور صیہونی قوتیں پاکستان کے تمام تر مسائل کی زمہ دار ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کی بنیادیں کمزور کر رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2010 میں پاکستان میں آنے والا تباہ کن سیلاب بھی امریکا کی سازش قرار دیا گیا تھا۔ایک ٹی وی چینل پر اس وقت کے معروف ٹی وی اینکراور ڈاکٹر صاحب نےایک پروگرام میں باقائدہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکا کے پاس وہ ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ بادلوں کے کسی بھی بڑے سلسلے کو کسی بھی ملک پر برسا کر تباہ کر سکتے ہیں۔

مزکوہ اینکر صاحب یہ نہی جانتے تھے کہ اسی سال امریکا کے بڑے شہر کیلفورنیا اور ٹیکساس خشک سالی کی لپیٹ میں تھے اور امریکہ ابھی اتنا طاقتور نہی ہے کہ قدرتی آفات سے مقابلہ کر سکے۔ ہمیں اب بونگیاں مارنے کے بجائے حالات کو حقیقت پسندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مزکورہ ممالک پاکستان کے خیرخواہ نہی ہیں۔ اور امریکا، اسرائیل اور انڈیا پاکستان کے دوست نہی ہیں تو ہمارے بہت سے اندرونی مسائیل کا زمہ دار کون ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے کسی اسٹاپ پر رک گئے ہیں یا شائد پیچھے کی جانب چل پڑے ہیں؟۔

میں 1988 میں منیلا گیا تو ان کی کرنسی پیسُوہمارے روپیئے سے کم تھی، اسی طرح 1990 میں بنکاک اور پتایہ گیا تو ان کا بھات بھی ہمارے روپئے کے مقابلے میں کم تھا۔ 1992 میں انڈیا کا چکر لگا تو ان کی کرنسی اور ہماری کرنسی تقریبا چند پیسوں کے فرق سے تھی۔ بنگلہ دیش ہم سے بہت پیچھے تھا۔ بات صرف کرنسی تک ہی محدود نہی تھی بلکہ ہم دنیا میں بہت سے شعُبوں میں دنیا کے سو ممالک سے آگے تھے۔ جن میں صحت، تعلیم اور رہن سہن کے طور طریقے شامل ہیں۔ مگر یہ کیا ہوا کہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہمارے وطن کو تو جیسے ریورزگئیر لگ گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کی طاقت اور اس کا استحکام اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کی غمازی کرتا ہے۔مگر ہماری کرنسی اپنی حثیت کھورہی ہے اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش جیسا ملک ہم سے آگے نکل گیا آج اس کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہاں ترقی ہو رہی ہے۔ بلکہ میں زاتی طور پر ایسے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو اپنا کاروبار اٹھا کر ڈھاکا لے گئے ہیں۔ اور اس کی وجہ وہاں کی کرنسی نہی بلکہ پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہے۔ اسی طرح بھارت بھی اتنی بڑی آبادی کے باوجود بھی خوشحالی میں ہم سے بہتر ہے۔

صحت میں بھی ہم دنیا کے شائد آخری دو تین ممالک میں شمار کئے جا رہے ہین جو کہ انتہائ شرمناک ہے۔ خیبرپختون خواہ میں پولیوں کے دو نئے کیس سامنے آنے کے بعد پولیو کے متاثرین کی تعداد 18 ہو گئ۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن میں پولیو جیسی خطرناک بیماری آج بھی موجود ہے۔دنیا میں ایڈز پر قابو پایا جارہا ہے۔ افریقہ سے شروع ہونے والی یہ بلا اب کسی حد تک کنٹرول میں ہے مگر پاکستان تو شاید اب دنیا کہ ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں یہ مفت بٹ رہی ہے۔ اندرون سندھ اسی سال 600 سے زائد کیس رجسٹرڈ ہوئے ۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ پنجاب میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد سندھ سے کئ گناہ زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کانگو وائیرس، ابیولا وائیرس جیسی بیماریاں جو افریقیہ کے دور افتاد جنگلوں میں موجود تھیں اب ہمارے ملک با آسانی دستیاب ہیں۔ کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے کہ کیوں؟۔ آئے دن چھوٹی بچیوں کے اغوا اور قتل کی خبریں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

پہلے نواز شریف اور زرداری نے پاکستان کو مقروض کیا۔ لوگوں کو عمران خان سے بہتری کی امید تھی وہ دوسرون سے دو قدم آگے چلے گئے۔ خود بین الاقوامی طور پر ایسے اعلانات کرتے ہیں کہ پاکستان مزاق بن جاتا ہے جس کی حالیہ مثال کیکڑا ون پروجیکٹ ہے۔ بطور وزیراعظم جب وہ میڈیا پر بات کرتے ہیں تو پوری دنیا ان کو سنتی ہے۔ ابھی تیل نکلا نہی کہ آگئ رادھا ناچنے کے لئے۔ ۔کچھ تو حالات نے ہمیں کمزور کیا کچھ ہمارے اپنے کرتوت ہمیں پستی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔پاکستان کے خلاف کوئ چھ بڑے مقدمے بین الاقوامی عدالت میں چل رہے ہیں۔ ان جن میں کلبھوشن یادیو کیس سمیت ریکوڈ ک ، ترکی کا رینٹل پاور پروجیکٹ اور حیدرآباد کا ایک پرانا مقدمہ بھی شامل ہیں۔ صرف ان مقدمات میں وکیلوں کی فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں پاکستان کوئ سو ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اگر یہ مقدمات ہار گیا تو مخالفین کے وکلا اور جرمانے سمیت آٹھ سے دس ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا جو کہ بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ صرف ریکوڈ ک کمپنی کو پاکستان کو جرمانے کی مد میں اربوں ڈالر کی رقم ادا کرنے کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ کھایا پیا کچھ نہی گلاس توڑا بارہ آنے۔ اس وقت ڈالر کے سامنے ہمارا روپئیہ شرمندہ ہو رہا ہے۔

ڈالر ایک روپئیہ منگا ہوتا ہے اور ہم مضید ایک سو ارب روپئے کے وزن کے نیچے دب جاتے ہیں۔ سیاسی انتشار کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ نوے کی دہائ کی لوٹا کریسی کی تاریخ دوبارہ دھرائ جارہی ہے۔عجیب ازادی ہے کہ میڈیا بھی آزاد نہی ہے۔ آٹا، دال، چاول، چینی غریب آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ کون زمہ دار ہے ان سب کا امریکا یا انڈیا؟۔ خان صاحب نواز شریف کو مودی کا یار کہتے تھے۔ اب ن لیگ ان کو مودی کی چمچہ گیری کا طعنہ دیتے ہیں۔ان کو یہ احساس بھی نہی کہ بہ حثیت وزیراعظم اس طرح کی بات کسی شخص کی نہی بلکہ ملک کی توہین ہے۔ سیاسی پارٹیون میں جوڑ توڑ کا کھیل شروع ہو چکا ہے، ججوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے ریفرینس اور سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں میں تیزی ملک میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں مندی، صعنت کے پہیہ کی رفتار میں کمی، ان سب کا زمہ دار کون ہے۔ کون سا یسا شعبہ ہے جس پر ہم فخر کریں۔ میں اپنے بچوں کو پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے فخر سے کہہ رہا تھا کہ ہمارا ملک سویٹزرلینڈ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ ہمارے برف پوش پہاڑ بہت اونچے اور وادیاں اور جھیلیں زیادہ خونصورت ہیں۔ بچے ابھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے سفر کا پروگرام بنا رہے تھے کہ چند ہفتے قبل خبر آئ کہ مری میں مقامی لوگوں نے سیاحوں کی جم کر پٹائ کی۔ کبھی خبر آئ کہ برف باری کی وجہ سے سیاحوں کو رات گاڑیوں مین گزارنا پڑی۔ جس وقت یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں خبر ہے کہ مری میں کیبل ٹوٹنے کی وجہ سے سینکڑوں لوگ لفٹ میں پھنسے رہے اور تقریبا 10 گھنٹون بعد ان کو نکالا گیا۔ ان سب حالات کہ ہم خود زمہ دار ہیں۔ ہمیں کسی دشمن ملک کی ضرورت نہی ہے جو ہمیں تباہ کریں ہم خود ہی کافی ہیں۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل