پاکستان: خوراک کی کثرت کے باوجود بچے غذائی قلت کا شکار

Mithi Children

Mithi Children

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو سالانہ لاکھوں ٹن گندم اور چاول بیرونی ممالک کو فروخت کرتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ ان ممالک کی فہرست میں بھی آگے ہے، جہاں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

اپنے سات ماہ کے بچے کی زندگی اور موت کے خوف میں مبتلا ایک ماں ہسپتال میں بچوں کے خصوصی وارڈ کی طرف بھاگ رہی ہے۔ بچے کی آنکھیں اندر دھنس چکی ہیں اور وزن بھی عام نوزائیدہ بچوں کی نسبت کم ہے۔ یہ بچہ ایک ایسے ملک میں غذائی قلت کا شکار ہے، جہاں خوراک کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہسپتال میں لائے جانے والے اس بچے کا وزن 2.5 کلوگرام ہے۔ عمومی طور پر اس عمر میں ایک صحت مند بچے کا وزن اس سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نیوز ایجنسی ایے ایف پی کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نومولود بچوں کی اموات اور غذائی قلت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

پاکستانی صوبہ سندھ کے علاقے مٹھی کے سول ہسپتال کے ڈاکٹروں کے لیے یہ کوئی انوکھا کیس نہیں ہے۔ صوبہ سندھ میں لاکھوں افراد کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ اس ہسپتال میں امراض اطفال کے ماہر ڈاکٹر دلیپ کمار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے پاس روزانہ کی بنیادوں پر ڈیڑھ سو سے ڈھائی سو کے درمیان بیمار بچوں کو لایا جاتا ہے اور ان کا تقریبا پانچواں حصہ غذائی قلت کا شکار ہوتا ہے۔

وارڈ میں غذائی قلت کے شکار نو دیگر بچوں کا بھی علاج جاری ہے۔ اپنے بچے کا ہاتھ سہلاتے ہوئے ایک پچیس سالہ ماں نذیراں کا کہنا تھا، ’’ہم کئی ڈاکٹروں کے پاس گئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا وزن دن بدن کم ہو رہا ہے۔‘‘

دنیا میں غربت اور بھوک پر نظر رکھنے والے ادارے انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی) کے اندازوں کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہے یا پھر اسے ناقص غذا فراہم کی جاتی ہے۔

لیکن اس ملک میں خوراک کی کمی نہیں ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے اندازوں کے مطابق توقع تھی کہ پاکستان مئی سن 2018 سے اپریل سن 2019 پانچ لاکھ ٹن گندم اور 7.4 ملین ٹن چاول برآمد کرے گا۔ رواں ماہ کے آغاز پر پاکستانی اخبار ڈان نیوز نے ملک میں آلوؤں کی بہتات کے حوالے سے رپورٹ شائع کی تھی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کا مسئلہ سماجی و اقتصادی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوراک موجود ہے لیکن عوام کی اس تک رسائی نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے اپلائیڈ اکنامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ سینئر ریسرچ معیشت دان ڈاکٹر عنبرین فاطمہ کہتی ہیں، ’’پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے چار اہم ستون ہیں۔ پہلا ہے اس کی دستیابی، پھر اس تک رسائی اور پھر استعمال اور استحکام۔‘‘ ان کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تھرپارکر میں ان چاروں کی کمی ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں یہ کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہیں۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے، ’’گندم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی اچھی ہے لیکن پاکستان اس کی ایک بڑی مقدار برآمد کر دیتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ قوت خرید کا ہے۔‘‘ ان کے مطابق عام شہریوں کو خوراک تک رسائی کا مسئلہ درپیش ہے اور اگر رسائی ہو بھی تو شاید ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسے ہی نہ ہوں۔ پاکستانی سرکاری ادارے پلاننگ ڈویژن کے سن 2017 میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی کثیر الجہتی غربت کا شکار ہے۔

دوسری جانب ڈاکٹر کمار کا کہنا تھا، ’’بچوں میں غذائی قلت کی بنیادی وجوہات میں مسلسل متعدد بچوں کے پیدائش، کم عمری میں شادیاں، ماؤں میں آئرن کی کمی، ماؤں کا بچوں کو دودھ نہ پلانا اور کمزور امیونائزیشن ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف اڑتیس فیصد مائیں ہی پہلے چھ ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ اس شرح میں کمی کی وجوہات مقامی روایات، ماؤں پر کام کاج کا بوجھ اور مصنوعی دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کی طاقتور مارکیٹنگ ہیں۔