اَب تو کوئی نتیجہ نکلے ..؟؟

 Tahir-ul-Qadri,Imran Khan

Tahir-ul-Qadri,Imran Khan

اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پاکستانی بھی بڑے ہی عجیب خصلت واقع ہوئے ہیں اپنے پہ آجائیں تو وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے اور اگرہمیں کچھ نہ کرنا ہو تو کسی کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی کچھ نہیں کرتے ہیں اَب عمران و قادری کے دھرنوں کو ہی دیکھ لیجئے کہ دونوں کے دھرنوں کو ایک ماہ سے بھی اُوپر کا عرصہ چکا ہے مگر اَب تک دونوں کی توقعات کے مطابق کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے، اَب یہ اور بات ہے کہ دھرنے والے ٹھیک ہیں یا غلط…؟ مگر آج اِس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاہے کہ اپنے مطالبات اور اپنے لوگوں کے ساتھ دھرنیوں کا اپنے لئے یوں)گرمی اور بارش و طوفان میں) نکلنا اور ملک کے سب سے زیادہ احساس ( سیاسی و حکومتی اعتبار سے مقدس کہے جانے والے علاقے)ریڈزون کو ایک ماہ تک اُلٹ پلٹ کردینا ہی احبابِ اقتدارکے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے تھا مگر…؟؟؟۔

اَب اِس سارے منظر اور پس منظر کے لحاظ سے افسوس ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ایسی ضد اور اَناکے بھی کیاکہنے کہ اَب تک جنہوں نے دھرنیوں اور اِن کے مطالبات کواہمیت ہی نہیں دی ہے اور حکمران ٹائم پاس کے طورپر دھرنیوں کو سوائے مذاکرات کے بہلاوے کے کچھ نہیں دے پارہے ہیں ،آج اگر اتناطویل دھرنادنیاکی کسی تہذیب یافتہ دمُلک میںدیاگیاہوتاتو…؟؟وہاں خداجانے کیا کیا تبدیلیاں رونماہوچکی ہوتیں…؟؟ مگر افسوس ہے کہ سوچنے سمجھنے اور عوام کی دُکھ درداور تکالیف کا احساس کرنے والی حس ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہے،مجھے یقین ہے کہ اگر آج بھی اِن میں سوچنے سمجھنے اور عوام کے دُکھ درداور تکالیف کا احساس کرنے والی حس پیداہوجائے تو ممکن ہے کہ اگلے دِنوں میں وطنِ عزیزمیں بھی بہت ساری کرپشن سے پاک مثبت و تعمیری تبدیلیاں رونماہوجائیں مگر اِس کے لئے صرف شرطِ اولین بس یہی ہے کہ ہمارے حکمران و سیاستدان اپنی ضد و اَناکے خول سے باہر نکلیںاورحقیقت پسندی و عملیت پسندی کی عینک لگاکر ذرا سوچیں، سمجھیں، اور ا پناااحتسا ب کرتے ہوئے اِس بات کا حساس کریں کہ 35/30دنوں سے جن لوگوں نے دھرنادیاہواہے اِنہیں ایساکرنے پراِن(حکمرانوں) کی اپنی ناقص پالیساں ہی ہیں جن کی وجہ سے لوگ بھپرے ہوئے سمندرکی طرح باہرنکلے ہیں اور اِس طرح سے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

جبکہ اُدھر دھرنی اپنے مطالبات اور وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ لئے اور حکومت کے خاتمے کے بغیر ٹس سے مس ہونے کا ارداہ نہیں رکھتے ہیں گو کہ آ ج اگرایسے میں یہ گمان کرلیاجائے تو کوئی بُرانہ ہوگاکہ دونوں ہی جانب سے ضداور اَناکاگھمسان کا رَن جاری ہے، اَب اِس میں دیکھتے ہیں کہ کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کو پسپائی ملتی ہے ایک طرف حکمران ہیں کہ اُنہوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ عمران و قادری کے دھرنوں اور مطالبات کے دباؤمیں اقتدار نہیں چھوڑناہے تو دوسری طرف اپنے مطالبات اور وزیراعظم کے استعفے پہ ڈٹ جانے والے عمران و قادری کا یہ اٹل فیصلہ اور حکم ہے کہ یہ بھی وزیراعظم کا استعفیٰ اور حکومت کے خاتمے تک( لاکھ جتنے بھی ریاستی مظالم ڈھادیئے جائیں یہ دونوں) اپنے دھرنے ختم نہیں کریں گے۔اَب حکومتی ضداور اَنااور عمران و قادری کے مطالبات اور دھرنوں کے سامنے ایسی کوئی بیچ کی راہ بھی سُجھائی نہیں دی رہی ہے کہ جس پر فوری عمل کرکے دونوں فریقین سے مفاہمتی راستہ ہی نکال لیاجائے دنیاکی سیاسی تاریخ سے کتابوں کے ابواب بھرے پڑے ہیں کہ اور جب ایسی کوئی پوزیشن پیداہوجائے جس میں مفاہمت کی کوئی لکیرنظرنہ آرہی ہوتو پھر سیاسی فریقین کو صبروشکرکا دامن تھام کر فیصلہ وقت وحالات کے دھارے پر چھوڑدیناہی فریقین کی عافیت ہوتی ہے ورنہ طاقت کا استعمال(آج جیساکہ حکومت عمران و قادری کے کارکنان کی گرفتاریاں کرکے )کررہی ہے تو اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے میں حالات کوئی اور رخ اختیارکرجائیں جو آنے والے دنوں میں فریقین بالخصوص حکومت کی پیشانی پہ کلنگ کا ٹیکہ ثابت ہو۔

اگرچہ یہ بھی ممکن ہو اور اِس سے بھی کسی کو انکار نہ ہو کہ آج اگر موجودہ حالات اور واقعات کو مدِنظر رکھ کر دیا جائے تو عمران اور قادری کے دھرنوں نے طوالت کے اعتبارسے تمام عالمی ریکارڈ ضرور توڑ دیئے ہیں اور اگر جیساکہ دونوں کے عزائم ہیں کہ اِن نے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو یہ دھرنے مزید طول بھی پکڑسکتے ہیںتو خدشہ ہے کہ اِس سے مزیدبین الااقوامی ریکارڈ قائم ہو جائیں گے، اَب ایسے میں حکمرانوں کو چاہئے کہ یہ تُرنت اپنے اُوپرچڑھے ضداور اَناکے موٹے خول کو اُتارپھینکے اور دھرنے میں شامل( موسمی اور ریاستی تکالیفیں برداشت کرتے) عوام کو ہی دیکھتے ہوئے عمران وقادری کے مطالبات من و عن تسلیم کرلیںاور دھرنوں کومزیدکوئی تاریخ رقم کرنے سے روکنے کے لئے اقدامات کریں اوراَب تو ویسے بھی خود حکمرانوں ، اپوزیشن والوں ،سیاستدانوں ، مذاکراتی جرگوں اور دھرنے والوں کے پاس بھی کہنے و سُننے اور سُنانے کے لئے کچھ بھی نہیں رہا ہے اور بقولِ شاعر بھی کہ:۔

جس شوخئی مزاج پہ نازاں تھے اہلِ دل وہ شوخئی مزاج بھی باقی نہیںرہی
پہلے تو احتجاج پہ تھاانحصارِ زیست اَب تابِ احتجاج بھی باقی نہیں رہی

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com