کالا باغ ڈیم ایک تنازعہ

Shamsul Mulk

Shamsul Mulk

صحافت کا ایک طالب علم ہونے کے باوجود بھی شاید میں پاکستان کی عوام اور اسکے کاشتکاروں کے لیے کالاباغ ڈیم کی اہمیت کا ذکر اس تفصیل سے نہ کر پاوَں، جتنا خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سابق ڈائریکڑ واپڈا شمس الملک بیان کرتے ہیں۔ یا سندھ اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے وہ زمیندار جن کے علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر پڑی ہے۔ یا وہ لوگ جن کی پچھلے کئی سالوں سے فصلیں اور مکانات پانی سٹور نہ ہونیکے مناسب انتظام کی وجہ سے سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ کئی قیمتی جانیں بھی سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔

کالا باغ ڈیم کے لیے زمین کے انتخاب کا سروے 1955 ہی میں کروالیا گیاتھا۔ لیکن مختلف سیاسی اتار چڑھاو کے باعث ایک طویل عرصہ کے بعد 1984 میں اسکی تعمیر کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی اس کی تعمیر کا اعلان ہوا۔ کچھ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے رہنماء اپنی دوکانداری چمکانے کے لیے بس آگئے میدان میں۔ سندھ کی کچھ سیاسی جماعتوں کے مطابق دریائے سندھ کا پانی روک کر کالا باغ کی جانب دریائے سندھ کا رخ موڑدیا جائے گا۔ جس سے سندھ کی زرعی زمین متاثر ہوگی۔کے پی کے کے کچھ سیاسی رہنما وں کے مطابق اس کی کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ پنجاب کو ملے گا۔اور اسکی تعمیر سے نوشہرہ سمیت اردگرد کے کئی علاقے ڈوبنے کا خطرہ ہوگا۔

سندھ کے وہ معصوم سیاسی لیڈر جو کالاباغ ڈیم سے سندھ کی ز ر عی زمین کی تباہی محسوس کرتے ہیں انہیںبتاتا چلوں کہ ڈیم کا پانی تو کچھ ہی دنوں میں دریائے سندھ کے پانی سے بھر جائے گا۔اور اسکے بعد تو دریائے سندھ کا پانی اپنی روزمرہ روٹین کے مطابق چلے گا۔لیکن اب بھی دریائے سندھ کے پانی کا ایک بڑا حصہ سمندر میں گر کر ضائع ہورہاہے۔ دوسرے سوال کا جواب KPK کی پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ لینے والی سیاسی جماعتوں کے لیے ہے کالا باغ ڈیم پاکستان کا ڈیم ہے اور اس سے ہونے والا فائدہ پنجاب کا نہیں پاکستان کا فائدہ ہے کالا باغ ڈیم میں پانی محفوظ ہونے سے سیلاب کی تباہی سے جو قیمتی جانیں بچیں گی انکی شناخت میں صوبہ بعد میں اور پاکستان پہلے آتا ہے۔کالاباغ ڈیم کی کمائی چاہے کسی صوبہ کہ حصہ میں کم آئے یا زیادہ ،اس سے فائدہ پاکستان کی معشیت کا ہے۔ اور تیسرا سوال نوشہرہ ڈوب جائے گا ؟

Kalabagh Dam

Kalabagh Dam

کالا باغ ڈیم کے نقشے کے مطابق کالاباغ ڈیم کی اونچائی 915 فٹ ہے جبکہ نوشہرہ کالاباغ ڈیم کے مقام سے 1000 فٹ سے زائد کی بلندی پر واقع ہے تو نوشہرہ تک تو کالاباغ ڈیم کی اونچائی ہے ہی نہیں۔ تو کالاباغ کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوبنا کیسے ممکن ہوگیا۔کالاباغ ڈیم سے ہونے والے کچھ فوائد بتاتا چلوں ۔کالاباغ ڈیم پر آنے والی لاگت اس سطح کے کسی بھی دوسرے منصوبے سے بہت کم ہے کیونکہ کالاباغ ڈیم جس مقام پر واقع ہے اس مقام کو تینوں اطراف سے پہاڑیوں نے گھیرا ہوا ہے اور صرف فرنٹ پر گیٹ لگا کر ڈیم کی تکمیل مکمل ہوجاتی ہے۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے سے جہاں ایک طرف سیلاب سے بچنا ممکن ہوگا،ساتھ ہی ساتھ اس ڈیم کے مکمل ہونے سے شروع ہی میں 2000 میگا واٹ تک بجلی کا حصول ممکن ہوگا۔اور کرائے کے بجلی گھروں سے 23 روپے فی یونٹ تک حاصل ہونے والی مہنگی بجلی کادبائو بھی کم ہوگا۔ اور کالا باغ ڈیم سے بجلی کی پیداوار میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔

پاکستان انرجی بحران سمیت کئی مسائل سے دوچار ہے۔اس صورتحال میں توسیاسی جماعتوں کو اپنی سیاست چمکانے کی بجائے حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔کم ازکم ان مشکل حالات میں نام نہاد سیاسی جماعتوں کو اپنی دکانداری چمکانے سے باز رہنا چاہیے۔دہشت گردی ،توانائی بحران،جیسے اور بہت سے مسائل نے پاکستان کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے ان سب مسائل کے مقابلہ کرنے کی ذمہ داری صرف حکومت اور اسکی اتحادی جماعتوں کی ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کی ہے۔لیکن ملک میں بسنے والی کچھ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے رہنماء اپنی دوکانداری چمکانے کے لیے بغیر کسی وجہ کے کالا باغ ڈیم کے خلاف نعرہ لگاتے رہتے ہیںاور پاکستان کی عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

کالا باغ ڈیم بنانے کا شوق PPP,PML N ظاہر کرتی رہی ہیںاور خوشی کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی تیسری ابھرتی ہوئی سیاسی قوت پی ٹی آئی کو بھی ا س پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔اب وقت کی ضرورت کے مطابق تمام صوبوں کے وزرااعلی کو متحد ہو کر ایک بار پھر 1991 کی طرح اسکی تعمیر کو تکمیل تک لانے کا عہد کرنا ہوگا۔اور وفاقی گورنمنٹ بھی تمام ذرائع کو بروکار لاتے ہوئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر یقینی بنائے ۔اور اگر ملک کی ترقی میں حائل کچھ سیاسی قوتیںاسکے خلاف بولنے سے باز نہیں آتیں تو شمس الملک کے فارمولہ کے مطابق ان سیاسی جماعتوں کے صوبوں میں کالاباغ ڈیم پر ریفرنڈم کروا کر ان سیاسی جماعتوں کے منہ بند کر دیے جائیں۔

Abdul Rauf Chouhan

Abdul Rauf Chouhan

تحریر: عبدالروَف چوہان
Email:chouhan201259@yahoo.com