پاکستان پر واجب الادا قرضے

Pakistan

Pakistan

پاکستان پر واجب الادا قرضے ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے جس کے بارے میں شاید معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں وزیر سے لے کر وزیر اعظم تک ہر کوئی اس بارے بات کر نے سے کتراتا ہے حکومتی اخراجات میں بے اعتدالی، اللے تللے، ناقص منصوبہ بندی اور دیگر ایسے کئی عوامل غیر ملکی قرضوں کو ادائیگی میں بڑی رکاوٹ ہیں کئی سالوں سے ہماری اقتصادی و معاشی صورت حال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے کی نوبت آن پہنچی ہے پاکستان پر واجب الاداغیر ملکی قرضوں کی مالیت چار کھرب سے بڑھ کر 9 کھرب تک جا پہنچی ان حالات میں وزارت خزانہ کے ساتھ ساتھ کئی حکومتی کے کرتا دھر تا بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی اصلاح احوال کیلئے کچھ نہیں سو جھ رہا اس سے پہلی حکومت کے دو رمیں ملک پر مجموعی طور پر بیرونی قرضہ 4 کھرب تھا مشرف دور میں عوام کو بجلی سمیت کئی ضروری اشیاء پر سبسڈی دی جا رہی تھی۔

جو موجودہ حکومت نے بتدریج ختم کر دی سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب یہ سبسڈی بھی نہیں نوٹ بھی دھرا دھڑ چھاپے جا رہے ہیں پھر ملک پر بیرونی قرضوں میں مسلسل اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے انتخابی و عدے کے بر عکس ڈیڑھ دو سال میں ہی 5 کھرب کا نیا قرضہ لے لیا یہ پانچ کھرب کہاں گئے کیا محترم وزیر خزانہ اس کا جواب دینا پسند کریں گے 17 کروڑ سے زائدکی آبادی کے ملک پاکستان کا ہر شہری قریباً80000ّ روپے کا مقروض ہو گیا ہے جوفی کس آمدنی کے لحاظ سے 65 فی صد سے بھی زائد ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 2009ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 50ارب10کروڑ ڈالر تھے جبکہ ملکی قرضوں کی مالیت 46.57 ارب ڈالر بھی تجاوز کررہے تھے ملکی قرضوں میں 24 ارب ڈالر شارٹ ٹرم قرضے ٹریڑری بلز کی شکل میں اس کے علاوہ ہیں اس طرح ملکی قرضوں کی مالیت مجموعی قومی پیداوار 57.6 فی صد کے برابر ہے، پاکستان پر قرضوں کا یہ بوجھ اوسط سالانہ آمدنی سے 5 گنا اور بجٹ ریونیو سے 6 گنا زیادہ ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ملک سنوارو۔ قرض اتارو سکیم شروع کی کئی تھی یہ سکیم قومی امنگوں کے عین مطابق تھی۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

جنرل مشرف اگر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو شاید پاکستان غیر ملکی قرضے اترنے میں کامیاب ہو جاتا۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2013ء میں قرض معاہدہ کی پہلی قسط جب پاکستان کو ملی لیکن اسی مدت کے دوران پاکستان کو 3 قرضوں کی ادائیگی کرنا پڑی ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ جوں جوں پاکستانی روپے کی قیمت کم ہوتی ہے غیر ملکی قرضوں کی مالیت میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لئے اپنے دسائل پر انحصار کرنا ہو گا، ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ادا نہیں کردئیے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہ، ہر قسم کی مراعات، پروٹوکول اور الائونسز بند کر دئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیورو کریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طبقہ کی تمام آشائسیں پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان ہے تو ہم سب کا مستقبل تابناک اور روشن ہے حکومت کو اب زبانی جمع تفریق کی روش ترک کرنا ہوگی قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے طریقہ کار طے کرنے کے لئے ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے ورنہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض رہے گا اور آنے والی نسلیں کبھی ہمارے حکمرانوں کو معاف نہیں کریں گی۔

Ilyas Mohammad Hussain

Ilyas Mohammad Hussain

تحریر: الیاس محمد حسین