پاکستان ایک عذابِ مسلسل میں

Pakistan

Pakistan

پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 65 برس سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے، کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور استحکام کے لئے یہ عرصہ بہت ہوتا ہے، ہمارے بعد بہت سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل چکے ہیں۔ اﷲتعالی نے اس مملکت خداد کو بے شمار نعمتوں فضلوں اور برکتوں سے نواز رکھا ہے۔ چار خوبصورت موسم ہیں، بہار کا موسم آتا ہے تو چہار جانب لہلاتے رنگ برنگے پھل پھول نظر آتے ہیں۔

سردی آتی ہے توبس اس قدر ہوتی ہے کہ آپ اس سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور کینیڈا کی طرح نہیں کہ ہر طرف برف ہی برف ہو اور کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے۔ موسمِ گرما آتا ہے تو اپنے بھر پور جوبن پر ہوتا ہے جو کہ فصلوں کے پھلنے پھولنے کے لئے ضروری ہے گندم کی فصل بھی اسی موسم میں سونے کی طرح کھیتوں میں لہلہاتی نظر آتی ہے معتدل موسم ہونے کی وجہ سے دیگر بہت سی فصلیں اور پھل با آسانی کاشت کیے جا سکتے ہیں، بلند و بالا پہاڑ، خوبصورت و حسین وادیاں، دریا، سمندر الغرض پاکستان ایک بے بہا خزانہ ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر حکمرانوں میں حب الوطنی ور غریب عوام سے ہمدردی کا جزبہ موجزن ہوتا تو آج پاکستان ترقی کے بہت سے سنگِ میل طے کر چکا ہوتا، مگر ہوا اس کے برعکس۔ بجلی کو ہی دیکھ لیں۔ ایک طویل عرصہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے پاکستانی قوم آج سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

الیکشن کے بعد توقع اور امید تھی کہ بجلی کا مسئلہ کسی حد تک تو حل ہو ہی جائے گا۔ پوری قوم بہتری کی امید اور خوشخبری سننے کے لئے کان لگائے بیٹھی تھی۔ کہ الیکشن کی مہم کے دوران جولوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے اب ان کو کس حد تک پورا کیا جاتا ہے، مگر اس وقت پوری قوم کو سخت مایوسی ہوئی اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، جب پانی و بجلی کے وزیر موصوف خواجہ آصف صاحب یہ فرماتے سنے گئے۔

بجلی کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے سکتے۔ گویا ایک تو آسمان پر آگ برساتا سورج اور دوسرا بجلی ندارد۔ تصور کریں ایک ایسے گھر کا کہ جہاں تنگ و تاریک کمروں میں ماں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ شدید گرمی میں نڈھال بیٹھی ہے۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا ایسا طبقہ ہے کہ جو نہ UPS رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے نہ جرنیٹر۔ کس قدر ظلم اور اذیت کی انتہا ہے کہ حکمران AC والے کمروں میں بیٹھ کر بجلی کے بحران پر قابو پانے کے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں۔

Political Party

Political Party

کہتے ہیں مظلوم کی مدد مظلوم ہی کر سکتا ہے اور ایک غریب کا دکھ غریب ہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔فاقہ کشی ہی بھوک کا احساس دلاتی ہے۔ پھر کس طرح یہ حکمران پاکستان کی غریب و مظلوم عوام کی خدمت کا دعوی کرتے ہیں۔ وزیر موصوف کا یہ بیان غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کاباعث بنا ہے، تبھی تو فیصل آباد میں عوام کے غصے کا پارہ آسمان کو چھونے لگا اور انہوں نے باوجود شدید گرمی کے احتجاج کیا۔ املاک کو نقصان پہنچایا۔

اگرچہ عوام کا یہ رد عمل کے جس سے املاک کا نقصان ہو کوئی اچھا فعل نہیں ہے، مگر مزید ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ پولیس بھی ان پر جھپٹ پڑی۔ no faer کی وردی پہنے گرمی سے ستائی احتجاج کرتی عوام پر بلا تفریق اور بلا خوف و خطر ڈنڈے برساتی رہی، اسی پر بس نہیں کیا بلکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتی گھروں میں گھس گئی۔ پنچاب پولیس کا یہ عمل انتہائی قابل مذمت ہے۔

غریب عوام تو دوہرے عذاب میں مبتلا ہے۔ روزگھٹ گھٹ کے مرتی ہے،بجلی نہ ہونے سے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے ،بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے، نفسیاتی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، ٹینشن ڈپریشن ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے ، 20,20 گھنٹے لائیٹ نہ ہونے کے باوجود اتنا ہوشربا بل آتا ہے کہ شریف عوام کی تو چیخیں ہی نکل جاتی ہیں، مگر مجبورہیں اس ڈرسے کہ کنیکشن ہی منقطع نہ کر دیا جائے۔ بجلی چوری کی روک تھام کے لیئے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے۔

پاکستانی عوام ملک و قوم کی خاطر اور ترقی و استحکام کے لئے قربانی دینا جانتی ہے، جانی قربانی تو دے ہی رہی ہے اگر بجلی کی پیداوار کے لئے مالی قربانی کی ضرورت ہے تو وہ بھی دینے کو تیار ہے، حکومت نیک نیتی سے کوئی منصوبہ تو شروع کرے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ سواں ڈیم سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے،پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے بہترین مقام پوٹھوہار میں وادی سواں ہے، جہاں 38 سے48 میلن ایکڑ فٹ پانی سما سکتا ہے جو کہ تربیلا، کالا باغ اور دیا مر بھاشا سے آٹھ گنا بڑا ہے۔

Peshawar Flood

Peshawar Flood

اس ذخیرہ کو استعمال میں لا کر پاکستان کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے، اس سے وادی پشاور میں سیلاب کے نکاس اور، زیریں پنجاب اور سندھ میں انتہائی درجے کے سیلابوں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ 6 ملین ڈالر کی لاگت سے اس منصوبہ کو پایئہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ انجینئر انعام الرحمان نے پیش کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کے پیداوری شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک جگہ جمع کیا جائے ،اور پوری توجہ اور نیک نیتی سے اس کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جائے۔ صرف سیاسی بیانوں پر انحصار کی پالیسی کو ترک کیا جائے۔ بہت ہو گئی بیان بازی، خدارا ! اب تو نیک نیتی سے کوئی عملی قدم اٹھا لیا جائے۔

اللہ تعالی نے واقعی پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ بہترین دماغ اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی کسی شعبے میں کمی نہیں، اگر کمی ہے تو درست اور بروقت فیصلہ کرنے والوں کی، اگر ملکی وسائل کو اپنی ضرورتوں اور ذاتی عیش و عشرت پر استعمال اور خرچ نہ کیا جاتا تو عوام آج بجلی کے عذاب کا سامنا نہ کر رہی ہوتی۔
تحریر : مریم ثمر