پاکستان میں پولیو مہم کیوں ناکام ہوئی؟

Polio Campaign

Polio Campaign

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان اور افغانستان وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو وائرس ہر سال کئی بچوں کی زندگیوں کو مفلوج کر رہا ہے۔ پاکستان کو توقع ہے کہ ملک گیر مہم کے ذریعے اگلے سال کے آخر تک ملک سے اس وائرس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

سن 1988ء میں ‘عالمی ہیلتھ اسمبلی‘ میں پولیو وائرس کے خاتمے کی قرار داد منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کے چھ سال بعد 1994ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ منظم انداز میں پولیو وائرس کے خاتمے کی مہم کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں پولیو کے سالانہ تقریباﹰ بیس ہزار کیسز ریکارڈ کیے جاتے تھے۔ کئی سال کی کوششوں کے بعد پاکستان ان کیسز کو بہت بڑی تعداد میں کم کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن یہ ملک اب تک اس وائرس کا خاتمہ نہیں کر پایا۔ ڈی ڈبلیو نے اس موضوع پر پاکستان میں پولیو کے قومی کووآرڈینیٹر اور نینشل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر رانا صفدر سے گفتگو کی۔

ڈاکٹر رانا کا کہنا ہے کہ 1994ء سے پاکستان میں پولیو وائرس کے خلاف کوششوں کے باعث سن 2004 تک پاکستان کو کافی کامیابی حاصل ہوئی۔ 2004ء میں ملک میں صرف تیس کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث اس خطے کی صورتحال تیزی سے بدل رہی تھی اور ایک ایسا وقت آیا کہ سکیورٹی صورتحال کے باعث ملک میں پانچ سال سے کم عمر چھ لاکھ بچوں تک پولیو ورکرز نہیں پہنچ پائے اور یوں ہر سال پولیو وائرس کے کیسز کا اضافہ شروع ہو گیا۔

ڈاکٹر رانا نے بتایا،” سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے ساتھ ساتھ پولیو ویکسین کو مغربی ایجنڈا ٹہرائے جانے کا پراپیگینڈا بھی بڑھتا گیا۔‘‘2012ء میں پہلی مرتبہ پولیو ورکرز کی ٹیم پر حملہ کیا گیا اور اس کے بعد سے پولیو ورکرز پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈاکڑ رانا کہتے ہیں کہ ان مختلف وجوہات کے باعث کیسز کا سلسلہ بڑھتا رہا اور 2014ء میں پاکستان میں پولیو کے تین سو سے زیادہ کیسز ریکارڈ کیے گئے۔‘‘

ڈاکٹر رانا کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے ہی صحت کے بہت مسائل ہیں۔ ملک کے کئی علاقوں میں صاف پانی میسر نہیں ہے اور بچوں کی تقریباﹰ نصف آبادی غذائی قلت کا شکار ہے ۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں سے لوگ افغانستان اور افغانستان سے لوگ پاکستان سفر کرتے ہیں یہ عوامل بھی پولیو وائرس کے خاتمے میں خلل پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان میں سن 1978 سے ملک بھر میں پیدا ہونے والے بچوں کو پولیو ویکسن دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر رانا کہتے ہیں کہ تقریباﹰ تمام حکومتوں نے اس پروگرام پر توجہ دی لیکن پھر بھی عوام کے کچھ حلقوں میں ویکیسن کو قبول نہیں کیا جاتا اور اسی وجہ سے ملک گیر پولیو مہم چلائی جاتی ہے تاکہ ان بچوں تک پہنچا جا سکے جنہیں پیدائش کے وقت پولیو ویکسین نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر رانا کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پنجاب میں کم مذاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن باقی سبھی صوبوں میں پیدائش کے وقت بچوں کو ویکیسن پلانے کے حوالے سے کچھ حد تک مذاحمت کا سامنا رہتا ہے اور اسی وجہ سے پولیو مہم کے ذریعے عوام تک پولیو قطرے یا ویکسین پہنچانے کی مہم ضروری ہے۔

ڈاکڑ رانا کہتے ہیں کہ سن 2014 میں جب 306 کیسز ریکارڈ کیے گئے تو اس چیلنج کو نمٹنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کو اپنایا گیا۔ جس میں تمام پارٹنر تنظیموں اور دیگر اداروں کے ساتھ ایک نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔ نئے اقدامات کے باعث 2015ء، 2016ء میں کیسز کم ہونا شروع ہوئے اور 2017ء میں صرف آٹھ کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ لیکن حالات 2018ء سے تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔2018ء کے وسط تک ملک میں صرف تین کیسز ریکارڈکیے گئے تھے۔ ملک میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پولیو پروگرام کی انتظامیہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا جس سے بھی پولیو مہم کو نقصان پہنچا اور اس دوران ایک اور مسئلہ سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین کے خلاف بڑھتا ہوا پراپگینڈا تھا۔ ان دو بڑی وجوہات کے باعث پولیو مہم متاثر ہوئی اور سن 2019 میں پولیو کے 147 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

ڈاکٹر رانا کہتے ہیں کہ اب ایک نئی حکمت عملی کو اپنایا گیا ہے۔ بہترین اور قابل لوگوں کو مشکل ترین علاقوں میں بھیجا جا رہا ہے اور ان علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں سے سب سے زیادہ مذاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیو کے قومی کووآرڈینیٹر کے مطابق ایسے علاقوں کے معزز اور بااثر شخصیات اب پولیو ویکسین سے متعلق آگاہی میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر رانا کے بقول پاکستان کی زیادہ تر آبادی ویکسین کے خلاف نہیں ہے لیکن ملک کی تقریباﹰ پانچ فیصد آبادی ایسی ہے جو پولیو ویکیسن پر یقین نہیں کرتی۔ ایسے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں ہے اور یہ وہ آبادی ہے جہاں پہلے ہی سہولیات کا شدید فقدان ہے، نکاسی کا نظام نہیں ہے اور عوام غربت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور کے کچھ علاقے، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور بلوچستان میں کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ ایسے علاقے ہیں جہاں مزاحمت کی جاتی ہے۔ ڈاکڑ رانا کا کہنا ہے کہ علماء کے ہمارے ساتھ تعاون کے باعث اب مزاحمت کی بڑی وجہ مذہبی دلائل نہیں بلکہ دیگر وجوہات ہیں۔ اپنے بچوں کو پولیو ویکیسن سے دور رکھنے والے اکثر والدین کا کہنا ہوتا ہے کہ پہلے انہیں دیگر بنیادی سہولیات دی جائیں پھر وہ بچوں کو پولیو ویکسین پلانے میں تعاون کریں گے۔ جبکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پولیو ویکیسن کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں۔

اس سال پاکستان میں 65 کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر رانا کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے باعث ملک میں پولیو مہم کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں لیکن اگست سے ملک گیر مہم کا آغاز شروع ہو چکا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس سال وائرس کو محدود علاقوں تک کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر ان علاقوں پر توجہ دے کر 2021ء کے آخر تک پولیو وائرس کو مکمل طور پر ختم کر دینے کے ہدف کو حاکورونا کے خطرات کے سائے میں پولیو مہم کا دوبارہ آغازصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔