PIA تجھے کیا ہوا

PIA

PIA

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

11 اگست 2019ء کی رات 8 بجے ہم لوگ پیرس سے PK 770 میں سوار ہو چکے تھے ۔

میری سیٹ نمبر 42B تھی۔ جہاں پر پاکستان سے سوار ایک خاتون اور پیرس سے سوار ایک پختون نوجوان کے کیساتھ ہی میری سیٹ تھی۔ جو میں نے درخواست کر کے کھڑکی والی سیٹ سے بدل لی۔

نہ جہاز میں کوئی اخبار ، نہ رسالہ، نہ ٹی وی ، نہ مووی نہ ڈرامہ ، دنیا کا سب سے بورنگ (بیزار کن ) سفر کرنا ہو تو پی آئی اے میں آیئے ۔ بوڑھے بچے جوان مرد و زن ، مجال ہے جو کسی کی بھی وقت گزاری کا یا دلچسپی کا کوئی سامان اس جہاز پر موجود ہو ۔ اس میں دو طرح کے لوگ ہی سفر کر سکتے ہیں جنہیں دو چار گھنٹے بچانے ہوں یا دو تین سو یورو ٹکٹ کے۔۔ورنہ دنیا کی اور کوئی وجہ ایسی نہیں ہے، نہ اس ایئر لائن کی کوئی خوبی یا سروس ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے اس میں سفر کیا جائے ۔

ہم سے پہلے جہاز میں پاکستان سے بارسلونا جانے والے مسافر 8 گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے اس میں موجود تھے۔ جن میں بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی ۔ ان میں کسی کے پاس نہ تو کوئی تکیہ تھا اور نہ ہی کوئی کمبل تھا ، اور تو اور جہاز میں اے سی بھی نہ ہونے کے برابر شاذو و نادر ہی چلایا گیا تھا۔

یہاں بھی میرا ہاتھ والا پنکھا ہی کام آیا ۔

بچے بیچارے سیٹ کی دستیوں پر سر رکھے سوتے جاگتے بیچین ہو رہے تھے ۔

بزرگ شرما شرمی کچھ ضرورتا بھی نہ مانگ پا رہے تھے ۔ وہ بھی سوچ رہے تھے جب جوان اور بچے بار بار لائٹ جلا کر انہیں بلاتے ہیں تو مجال ہے کہ کریو کا کوئی فرد آ کر دریافت کرے کہ

ہمارے بیٹھنے کے 3 گھنٹے بعد جہاز پر کریو نے ایک ایک لنچ نکس تقسیم کیا ۔ اور ایک کپ چائے اور پیپسی کا گلاس دیا گیا ۔ لنچ بکس کھولا تو تو اس میں ایک عدد3 انچ لمبا کوئی بند کباب ٹائب تھا ، ایک عدد دو انچ کا پیٹیز ،

ایک عدد چھوٹا سا سادہ کیک کا ٹکڑا ، یہ اب رات کے 11 بجے ڈنر تھا، یا ناشتہ تھا ، یا مذاق تھا سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ اس کے بعد جلدی جلدی 15 منٹ میں ہی خالی ڈبے واپس سمیٹے گئے ۔ اور تمام جہاز کی روشنیاں بجھا دی گئیں اور کریو غائب ۔

ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بارسلونا پہنچ کر جہاز اترنے سے محض پندری بیس منٹ پہلے روشنیاں کی گئیں ۔ جہاز میں اور تو اور پرواز کی خئی ڈائریکشن کسی سکرین پر نمودار نہیں ہو رہی تھی ۔ جہاز مسافروں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا مجھے وہاں کوئی سیٹ خالی دکھائی نہیں دی ۔ کریو میں سے کوئی بھی پوچھنے ہر نہیں بتا پا رہا تھا کہ ہم کس مقام پر سفر کر رہے ہیں یا ہم کتنی دیر تک اپنی منزل پر پہنچیں گے ۔ بارسلونا پہنچ کر ساتھ کی نوجوان خاتون رخصت ہوئی اور مزید پاکستانی مسافر بارسلونا سے اسلام آباد کے لیئے جہاز میں سوار ہوئے۔ ہمارے ساتھ کی سیٹ پر ایک اور مہذب پختون نوجوان کی آمد ہوئی ۔

رات کے دو بجے تک کئی بار لوگ لائٹ جلا کر سروس کریو کو کبھی بچوں کے دودھ کے لیئے ، کبھی پانی کے لیئے کبھی کسی اور ضرورت سے بلا چکے تھے مجبورا مجھے سیٹ پر گھٹنے کے بل کھڑا ہو کر باآواز بلند احتجاج کرنا پڑا کہ بھائی کوئی ہے یہاں جو بار بار لائٹ بجھانے کے بجائے آ کر پوچھ سکے کہ جناب آپ کو کیا چاہیئے ۔ ۔ مجھے اپنی ساتھ والی سیٹ پر سے نوجوان لڑکے کو درخواست کرنے پڑی کہ بیٹا جاکر کچن سے مردے جگائے اور پانی کی بوتل ہی لا دے ۔ اسے کافی دیر کھڑا رکھ کر ایک گلاس پانی دیا گیا ۔ جبکہ میں نے پوری بوتل کا مطالبہ کیا ۔ اور کہا کہ جناب ہم لائٹ آپ کا دیدار کرنے کو نہیں جلا رہے کسی کام سے ہی بلا رہے ہیں ۔ پوچھنے کی زحمت تو فرمائیں، کیا ہم شمر کے جہاز میں سوار ہو چکے ہیں ؟

میری سیٹ کے دائیں جانب کا پیڈل موجود ہی نہیں تھا اور بائیں جانب کا بالکل فری تھا جو پاوں کو سہارا دینے کے بجائے پاوں کو تھکانے کا کام کر رہا تھا کیونکہ میں سیٹ بدل کر اس پر موجود تھی۔ کئی واش رومز اور ٹائلٹ کام ہی نہیں کر رہے تھے اور مسافر سارے جہاز میں ٹوائلٹ کے لیئے آگے اور پیچھے واک کرتے رہے ۔

صبح کے ڈھائی بجے کھانا سروو کیا گیا ۔ جس میں سب سے ہلکے برانڈ کے چاول کے چار کھانے کے چمچ (یاد رہے یہ چاول یورپ کے ان مسافروں کو پیش کیئے گئے جو ایک سے ڈیڑھ انچ لمبا شاندار چاول کھانے کے عادی ہیں ) ،ایک جانب اس پر چار عدد مٹن کی بوٹیاں موٹے قیمے کی سائز کی اور دوسری جانب تڑکا لگے چاول پر مسور کی پرانی دال کا ایک چمچ ڈالا گیا تھا جو تقریبا سوکھ چکا تھا ۔ ایک پیالی میں سلاد کے پتوں پر دو انگوری سائز ٹماٹر اور ڈبے کی توں مچھلی کا قیمہ ایک چمچ پتوں پر ڈال رکھا تھا ۔ جبکہ میٹھے کے نام پر کھیر جیسا کچھ لگا چکھا تو معلوم ہوا سیویاں دو چمچ دودھ ڈال کر اوپر بادام کی ہوائیاں چھڑکی گئی ہیں ۔ اور کافی دیر پرانی ہیں سو کھانے کے لائق نہیں تھیں ۔۔

4 بجکر 25 منٹ پر لائٹس آف کر دی گئیں ۔

چلیں ہمارے بولنے اور ساتھ میں کچھ اور مسافروں کے میری بات کی تائید کرنے اور شور کرنے پر کریو کو بھی تھوڑی مہمان نوازی دکھانی ہی پڑی ۔ اسی بہانے کھانا آرام سے کھانے دیا گیا اور پانی بھی ایک دو بار پوچھ لیا گیا ۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پورے جہاز میں جو کام چار لوگ کر سکتے ہیں وہ کام دس لوگوں کو کرنے کو کیوں رکھا گیا ہے ؟ یہ تنخواہیں ہی تو سروس کی تباہی کا باعث ہیں ۔

برائے مہربانی ارباب اختیار ان شکایات کا جائزہ لیں ۔ اور تھوڑی سی حب الوطنی دکھاتے ہوئے جہاز کی حالت (مینٹیننس) اور عملے کی تربیت پر توجہ دیجیئے ۔ تاکہ ہم مسافروں کو یہ ایک آرام دہ اور یادگار سروس مہیا کر سکے ۔ سچ پوچھیں تو جس حالت میں اس وقت پی آئی اے کے جہاز سفر کر رہے ہیں، دنیا کی کوئی ائیر لائن ایسے جہاز چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ اپنے مسافروں کو پی آئی اے کے کرتا دھرتاوں نے خود اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ دوسری ایئر لائنز پر سفر کریں ۔ آخر کو ہم اپنا حق حلال کا پیسہ آپ کے پھٹے پرانے ناکارہ جہازوں پر نالائق اور کام چور عملے کیساتھ سفر کر کے کیوں برباد کریں ؟ جبکہ دنیا کے بہترین جہاز ہماری میزبانی کرنے کو تیار ہیں تو ؟

کیا یہ ہماری حب الوطنی کی سزا ہے ؟

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس