مادری زبانوں کا عالمی دن

International Mother Language Day

International Mother Language Day

تحریر: روہیل اکبر

پاکستان سمیت دنیا بھر میں زبانوں کا عالمی دن منایا گیا مادری زبان کا عالمی دن 21 فروری کو عالمی سطح پر منایا جانے والا ایک طرح کا سالانہ جشن ہے جس کا مقصد لسانی اور ثقافتی تنوع کے بارے میں آگاہی اور کثیر لسانی کو فروغ دینا ہے اس دن کو منانے کاسب سے پہلے یونیسکو کی طرف سے 17 نومبر 1999 کو اعلان کیا گیا پھراسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2002 میں ایک قرارداد کی منظوری کے بعد باضابطہ طور پر اس دن کوتسلیم کرلیاتھا اور پھر 2008 کو زبانوں کے بین الاقوامی سال کے طور پر بھی منایا مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کی ابتدا سب سے پہلے بنگلہ دیش میں ہوئی بنگلہ دیش اس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھااور وہاں کے لوگوں نے بنگلہ زبان کو تسلیم کرانے کے لیے جدوجہد کی ابتدا کی تھی ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے بڑے پیمانے پر ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کیا 21 فروری 1952 کو پولیس نے ریلیوں پر فائرنگ کردی عبدالسلام، ابوالبرکات، رفیق الدین احمد، عبدالجبار اور شفیع الرحمان جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے یہ تاریخ کا ایک نادر واقعہ تھا کہ لوگوں نے اپنی مادری زبان کے لیے جانیں قربان کیں تب سے بنگلہ دیشی مادری زبانوں کے عالمی دن کو اپنے المناک دنوں میں سے ایک کے طور پر مناتے ہیں۔

اس دن وہ شہید مینار کا دورہ کرتے ہیں جو شہداء کی یاد میں تعمیر کی گئی ایک یادگار ہے مادری زبان کے عالمی دن بنگلہ دیش میں قومی تعطیل ہوتی ہے یہ قرارداد کینیڈا کے وینکوور میں رہنے والے بنگالیوں رفیق الاسلام اور عبدالسلام نے تجویز کی تھی انہوں نے 9 جنوری 1998 کو کوفی عنان کو ایک خط لکھا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ مادری زبانوں کے عالمی دن کا اعلان کر کے دنیا کی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے قدم اٹھائے رفیق الاسلام نے زبان کی تحریک کے دوران ڈھاکہ میں 1952 میں ہونے والی ہلاکتوں کی یاد میں 21 فروری کی تاریخ تجویز کی تھی۔زبانیں ہمارے ٹھوس اور غیر محسوس ورثے کے تحفظ اور ترقی کا سب سے طاقتور آلہ ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی مادری زبانوں کے پھیلاؤ کو فروغ دینے کے تمام اقدامات نہ صرف لسانی تنوع اور کثیر لسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کریں بلکہ پوری دنیا میں لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں مکمل آگاہی بھی پیدا کرکے افہام و تفہیم، رواداری اور مکالمے پر مبنی یکجہتی کی ترغیب دیں۔

کیونکہ کسی بھی علاقے کی تہذیب و تمدن میں زبان کا کلیدی کردار ہے رہن سہن اور باہمی معا ملات میں زبان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے مادری زبانوں میں لوک گیت، داستانوں اور رودات کے انداز میں علاقوں کی تاریخ، بودوباش، جنگی فتوحات اور تہذیب و تمدن کے تمام عوامل شامل ہوتے ہیں جبکہ مادری زبانوں کو زندہ رکھنے میں ان تمام زبانوں سے تعلق رکھنے والے شعراء،فنکار اور آرٹسٹوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو اپنے کلام اور فن سے ملک کی تمام مادری زبانوں کو زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں ہمارے وہ تمام شعراء، مصنفین، مفکرین اور فنکار خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے مادری زبانوں کو اپنے گیتوں، اشعار اور نثر کے ساتھ ساتھ فن کے شعبے میں بھی زندہ رکھا ہواہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بولی جانے والی تمام مادری زبانیں اور بالخصوص پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی،سرائیکی علاقائی مادری زبانیں محفوظ رہیں ان زبانوں میں علاقائی تہذیب و تمدن ثقافت اور کلچر کے ساتھ ساتھ جدید طرز زندگی اور اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ جدید شاعری اور نثر کے ساتھ ساتھ تحقیق کے رنگ بھی نظر آ تے ہیں۔

پاکستان میں چار صوبائی زبانوں پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی سمیت تقریبا 80 زبا نیں بولی جاتی ہیں ان میں سے تقریبا8 کے قریب غیر مقامی ہیں اردو ہماری قومی زبان اور انگریزی سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے 1998 کی مردم شماری میں سب سے زیادہ بولی جانے والی بنیادی زبانوں میں اردو،پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی اور بلوچی ہیں پنجاب میں جو زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں اردو، پنجابی، سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو، ہریانوی، پشتواورباگڑی زبانیں ہیں صوبہ سندھ میں اردو،سندھی،سرائیکی،گجراتی،دھٹکی (تھری)، پشتو،مارواڑی،کاٹھیاواڑی،بلوچی،کچھی اوراوڈ (اوڈکی)زبانیں ہیں خیبر پختونخواہ (کے پی کے) میں اردو،پشتو،ہندکو،کھوار (چترالی)، کلامی، سرائیکی، کوہستانی، کالاشا، پہاڑی،توروالی،پالولا،کشمیری،اوشو جی،ڈوماکی،وخی،بیٹری،کنڈل شاہی،فارسی،دمیلی اورکالکوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں صوبہ بلوچستان میں اردو، بلوچی، براہوئی، پشتو، سرائیکی، سندھی، دہواری، فارسی،مکرانی،ہزارگی اوردری زبانیں بولی جاتی ہیں آزاد جموں و کشمیر (AJK) میں اردو، کشمیری، پہاڑی، میرپوری، پشتو،ہندکو،پنجابی اورگجری یا گوجری زبانیں بولی جاتی ہیں گلگت بلتستان میں اردو، بلتی، شائنا، گجری، کشمیری، بدیشی،بروشاسکی اور گلگتی زبانیں بولی جاتی ہیں سبھی زبانیں پیار کی زبانیں ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اظہار کا زریعہ ہیں پنجاب میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار علاقائی زبانوں کی تریج اور ترقی کے لیے بہت سے اقدامات کررہے ہیں بلخصوص پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) پنجاب حکومت کی سرپرستی میں پنجاب زبان کے حوالہ سے جو کام کررہا ہے اسکا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔

سیکریٹری انفارمیشن راجہ جہانگیرانور اور ڈائریکٹر جنرل پلاک ڈاکٹر سغراں صدف کی کاوشوں اور انتھک محنت سے پلاک کا ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے پنجاب اور پنجابیوں کی جو خدمت پلاک سے ہورہی ہے وہ شائد ہی کوئی اور اس طرح کررہا ہو اور اب دنیا بھر میں پنجابی زبان سے پیار کرنے والوں کے لیے پنجابی ٹی وی چینل بھی شروع ہونے جارہا ہے جو اس دھرتی کا اکلوتا شاہکار ہوگا ہمارے اس خطے کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے دیسی مہینوں یعنی بکرمی کیلنڈرکا اغاز بھی برصغیر سے ہوا تھا جو تقریبا56سال قبل مسیح کا شروع ہے اس کیلنڈر پر مکمل کالم بعد میں لکھوں گا ابھی تو اتنی سی گزارش ہے کہ جنہوں نے اپنی مادری زبان کو سرکاری سطح پر تعلیمی، دفتری، عدالتی زبان کا درجہ دیا انہو ں نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی حاصل کیں اور آج دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کی ایک اہم وجہ مادری زبانوں سے محرومی ہے جب تک مادری زبانوں کو تعلیمی،دفتری،عدالتی زبان کا درجہ نہیں دیا جاتا اُس وقت تک ہمارا دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونا ممکن نہیں اس لیے ہم سب کو اس دن کی مناسبت سے یہ اعادہ کرنا چاہییے کہ ہم اپنی مادری زبان میں لکھیں، پڑھیں اور بولیں گے اور اس کے فروغ کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو برؤے کار لائیں گے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر