ظلم جب حد سے بڑھے

Palestine

Palestine

فلسطین میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک ہزارسے زائد افراد شہیداور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اخبارا ت اور خاص طور سے سوشل میڈیا پر معصوم فلسطینی بچوّں کی لاشیں چیخ چیخ کر اپنی بے گناہی کا اعلان کر رہی ہیں۔ عالمی برادری خاموش ہے۔حقوق انسانی کی دہائی دینے والے ادارے گونگے ہو چکے ہیں۔ ملالہ جیسی سکیڑوں جانیں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں لیکن امن کے نام نہاد رکھوالوں کو اس کا کچھ بھی ملال نہیں ہے۔ عرب ممالک نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

علاقائی سطح سے لیکر قومی اور بین الاقوامی سطح تک بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف معصوم فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے،اسکولی بچوں پر بم برسائے جا رہے ہیں،مساجد شہید کی جا رہی ہیں، دوسری طرف ہم عید کی تیاریوں میں لگے ہیں۔ بازاروں کی رونقیں روز افزوں بڑھتی جا رہی ہیں۔نبی رحمت ۖ کے فرمان سے کون انکار کر سکتا ہے”مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں ، جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہو اٹھتا ہے۔”آخر ہمارے اندر اپنے بھائیوں کے تئیں ہمدردی کا فقدان کیوں ہے؟فلسطین سلگ رہا ہے لیکن ہمارے شب و روز معمول کے مطابق گزر رہے ہیں۔یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے بھی ہو رہے ہیں لیکن ان مظاہروں میں ملی قیادت نظر نہیں آر ہی۔ عرب ممالک کے سربراہان سے لیکر کر قومی اور علاقائی سطح تک ویسے دینی و ملی ادارے جو کچھ اثر و رسوخ رکھتے ہیں، خاموشی کی ردا اوڑھے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بے شمار ایسے ویڈیوز اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں جنھیں دیکھنے کے بعد جسم لرز اٹھے، آنکھیں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوں۔ایک عورت اپنے شوہر کی شہادت پر ماتم کر رہی ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ دہشت گردوں نے میرے شوہر کو ماردیا، میری دنیا تباہ کر دی۔ اُس کا بیٹا قرآن کی آیت پڑھ کر اسے تسلی دے رہا ہے” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہووہ تو زندہ ہیں مگر تم کو خبر نہیں۔”(قرآن)۔ایک دوسرے ویڈیو میں ایک معصوم بچے کی خون آلود لاش لیے کچھ لوگ اسپتال سے باہر نکل رہے ہیں۔

بچے کی ماں کو کچھ لوگ سنبھالے ہوئے ہیں۔ایک نوجوان اسے تسلی دے رہا ہے۔ تسلی کے الفاظ اتنے پر اثر ہیں کہ سنتے ہی وہ عورت خاموش ہو جاتی ہے،”یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی کوئی غم(قرآ ن)”۔ایسے ہی بے شمار ویڈیوز یو ٹیوب اور فیس بک سمیت کئی سوشل نیٹ ورک کی ویب سائیٹس پر دیکھے جا سکتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ غزہ کے تعلق سے خبروں کی ترسیل کا سب سے مؤثر ذریعہ سوشل میڈیا ہی ہے۔ایک برطانوی اخبار لکھتا ہے کہ ”اسرائیل کو پتہ لگ گیا ہے کہ اب اس کے لیے فلسطینیوں کی قتل و غارت کو چھپانا سوشل میڈیا کے دور میں ممکن نہیں ہے اور سچ اس طرح سامنے آ رہا ہے کہ اب اسرائیل کے پاس خون میں ڈوبی نہتے افراد کی تصاویر اور تباہ حال عمارتوں کا کوئی جواب نہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی فوج کو زمین سے زیادہ آن لائن مزاحمت کا سامنا ہے۔”

Israel

Israel

فلسطین پر اسرائیل کے تازہ دہشت گردانہ حملوں نے عرب ممالک سے لے کر مسلمانان عالم کے مؤقف اور نظریات واضح کر دئیے ہیں۔ایک طرف جہاں سربراہان عرب کی مجرمانہ خاموشی اسرائیل کی خاموش تائید نظر آتی ہے وہیں عرب نوجوانوں کا سوشل میڈیا کے توسط سے احتجاج اس بات کی پیشن گوئی ہے کہ وہ دن دورنہیں جب شاہانِ عرب کی نیندیں بھی حرام ہوں گی ۔ قرآن کی یہ آیت یقیناً کسی اور تناظر میں نازل ہوئی ہے لیکن بعید نہیں کہ معصوم فلسطینی بچّوں کا خون بد دعا بن کر خادمِ اسرائیل و امریکہ کی بے حسی کو بے بسی میں تبدیل کر دے اور تب ان کے نام نہاد آقا بھی ان کی مدد کو آگے نہ آئیں: ”پھر کیاکریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ ان کا رب ان سے کہے گا کہ پکارو اب ان ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے ۔ یہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاک کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔”(سورة کہف)۔

Palestine

Palestine

فلسطین اور اس سے قبل مصر، لبنان اور دیگر عرب ممالک کے حالیہ واقعات نے مسلمانان عالم کو خواب غفلت سے بیدار ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔بین الاقوامی سطح پر باشعور مسلم طبقے نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔بے راہ رو نوجوان نسل دین سے قریب آ رہی ہے۔ٹکروں میں بکھرا ہوا ملت کا شیراہ متحد ہو رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ فلسطین جل رہا ہے، عورتوں کا سہاگ لوٹا جا رہا ہے، معصوم بچے اپنی مائوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ مظلوموں کا خون ہرگز رائگاں نہیں جائے گا۔رسول اکرمۖ کایہ فرمان یقینا سچ ثابت ہوگا کہ”قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور انھیں قتل کریں گے۔ حتیٰ کہ اگر کسی پتھر اور درخت کے پیچھے کوئی یہودی چھپا ہوگا تو وہ پتھر اور درخت پکار اٹھے گا کہ ائے مسلمان! ائے عبد اللہ! میرے پیچھے یہ یہودی چھپا ہوا ہے۔”(صحیح مسلم و مسند احمد)

کامران غنی، مدیر اعزای اردو نیٹ جاپان