ہمارا مفلوج نظام تعلیم

School

School

ترقی کے اس جدید دور میں جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے سائنسدانوں کو چاند پر بھیجنے کی تیاریوں میں ہیں، ہم ابھی تک اپنی بنیادی ضروریات کو بہتر کرنے میں میں مصروف ہیں جیسے ہمارا نظامِ تعلیم جو کہ دور جدید کے تقاضوں سے ابھی بہت پیچھے ہے۔ ترقی کے اس جدید دور میں ہر ملک تعلیم کو اولین ترجیح دیتا ہے مگر ہمارے ہاں تعلیم کی طرف توجہ کا رجحان خاصہ کم ہے۔پاکستان میں ابھی لاکھوں کی تعداد میں بچے دیہی علاقوں کے خستہ حال سکول کی عمارتوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے لیے حکومت پاکستان کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کر رہی جس کی سب سے بڑی وجہ محکمہ تعلیم کے اعلی افسران کی نا اہلی ہے جو دیہی علاقوں کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کی 67 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

مگر ان علاقوں تعلیم پسماندگی کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی کی سہولیات بھی ناقص ہیں جو عام آدمی کے لیے ناکافی ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ پاکستان کے پسماندہ اور دیہی علاقوں میں تعلیمی اصطلاحات میں بہتری لائی جائے تاکہ وہاں رہائش پذیر لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھے جس سے ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ ہو کیونکہ ملک کی زیادہ آبادی دیہاتوں میں آباد ہے۔ اب اگر ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے کہ وہ تعلیمی میدان میں کیسے ہم سے آگے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے کہ ان ممالک میں دن بدن تعلیمی اصطلاحات میں جدت لائی جا رہی ہے جب کہ ہمارے پاس وہی چند پرانے طریقے رائج ہیں جو برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کی اکثریت تقریبا5 سال کی عمر میں پہنچنے تک کمپیوٹر سے مکمل طور پر آگاہ ہو جاتی ہے کیونکہ اُن ممالک میں کمپیوٹر کو سمجھے بغیر تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک کا مکمل تعلیمی نظام کمپیوٹررائزڈ ہونا ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک کمپیوٹر کو لازمی مضمون بھی قرار نہیں دیا جا سکا تو اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام کب مکمل طور پر کمپیوٹررائزڈ ہو گا؟ شاہد اس کام کے لیے ہمیں کافی عرصہ درکار ہو کیونکہ دو سال قبل پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ طلباء کے داخلہ فارم کو آن لائن جمع کریں جب اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کیا گیا تو معلوم ہوا کہ آن لائن نظام بری طرح ناکام رہا اور آخر کار آئندہ کے لیے اس نظام کو بند کرنا پڑا۔

Computer

Computer

پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ نظام تعلیم کی یہ ایک تازہ مثال ہے جس میں ناکامی کا سامنہ کرنا پڑا اور اس ناکامی کی وجہ وہ افسران بنے جو کمپیوٹر کی سوج بوجھ بھی نہیں رکھتے ہیں اور پھر تعلیمی اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔اس لیے اب اگر پاکستان میں کمپیوٹرائزڈ تعلیمی نظام رائج کرنے کا منصوبہ ہے تو طالبعلموں سے پہلے ان افسران کو کمپیوٹر کی تعلیم دے جائے جو اس سے پہلے مکمل طو ر پر ناواقف ہیں اور ہمیشہ Manual کام کرتے رہے ہیں۔ چند دن پہلے پنجاب کے آٹھ تعلیمی اداروں نے میٹرک کا رزلٹ آئوٹ کیا جس کے بعد طلباء کو رزلٹ کارڈ فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر اب آپ راولپنڈی بورڈ کی نا اہلی کی انتہا دیکھیں کہ میٹرک کے امتحانات مارچ میں ہوئے مگر اس بورڈ نے تمام طلباء کے رزلٹ کارڈز پر امتحان کی تاریخ مارچ کی جگہ ستمبر لکھ دیا اور یوں ایک لاکھ سے زیادہ رزلٹ کارڈز غلط شائع ہو گئے جس سے راولپنڈی بورڈ کو 25 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور اب دوبارہ تمام رزلٹ کارڈز شائع کیے جا رہے ہیں۔

اس طرح کی نا اہلی صرف ایک بورڈ میں نہیں بلکہ یہی کہانی ہر تعلیمی بورڈ اور ہر یونیورسٹی میں دھرائی جا رہی ہے کیونکہ ان اداروں میں سفارشی بھرتی ہونے والے لوگ اس طرح کی نا قص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔اسی طر ح کی ایک اور ناقص کارکرگی کا مظاہرہ ملتان میں واقع بہاولدین ذکریا یونیورسی نے کیا جس نے دو سالہ دورانیہ کا پروگرام چار سال میں ختم کرایا۔ اسی یونیورسٹی کی ایم ایس سی ذوالوجی کی طالبہ سے میری بات ہوئی جس نے 2010 کے سیشن میں دو سالہ پروگرام شروع کیا تھا جو سمسٹر سسٹم پر مشتمل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انہیں انتظامیہ کی طرح سے انتہائی خوار کیا گیا اور ان کے پروگرام کو دو سالہ کے بجائے چار سال میں ختم کرنا پڑ رہا ہے۔اس نے مزید کہا کہ آخری سمسٹر کا امتحان دیا ہوا ہے مگر نتائج کے اعلان کا ابھی تک کوئی امکان نہیں اور اس طرح ایم فل میں داخلہ لینا بھی ان کے لیے مشکل ہو گا کیونکہ ایم فل میں داخلے کی تاریخیں ختم ہو رہی ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ انتہائی لا پرواہی سے کام کر رہی ہے جس سے سینکڑوں طلباء کا مستقبل تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔مذکورہ طالبہ نے محکمہ تعلیم اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کے معیارِ تعلیم پر کڑی نظر رکھی جائے تا کہ آئندہ کسی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کر سکے اور طلباء کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے عظیم پاکستانی نوبل انعام یافتہ سائینسدان پروفیسر ڈاکٹر عبداسلام صاحب کی قدر نہیں کی، آج پوری دنیا ان کے تجربات اور علم سے فائدے اٹھا رہی ہے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے دل میں ملک و قوم کی تعلیمی میدان میں خدمت کی کس قدر تڑپ اور لگن تھی آپ نے نشان امتیاز سمیت مختلف ممالک سے ملنے والے 19 سے زائد اعزازات اور ڈاکٹریٹ کی مختلف ممالک کی 13 سے زائد اعزازی ڈگریاں لے رکھی ہیں۔عالمی سوسائیٹئوں کی رکنیت اس کے علاوہ ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا، انڈین اداکاروں کی تاریخ پیدائیش اور تاریخ وفات تو ہمیں خوب یاد دلائی جاتی ہے مگر ہمارے اس عظیم ہیرو کو یاد کرنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ جو قومیں جو اپنے اصلی اور حقیقی ہیرو کی قدر نہیں کرتیں وہ ہمیشہ منہ کے بل ہی گرا کرتی ہیں یا ان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس کی بہت سی مشالیں ہمیں اب اپنے معاشرے میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ چراغ تلے اندھیرا شاید اسی کو کہتے ہیں۔

قارئین کچھ عرصہ قبل بی بی سی نے پاکستان میں واقع رسول پور نامی گائوں کے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اس گائوں کی شرح خواندگی 100% ہے اور اس گائوں کے لوگ کم از کم گریجویٹ کو پڑھا لکھا تصور کرتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا ہر گائوں رسول پور جیسا ہی ہو جائے جہاں تمام لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہوں۔ خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے ہمیں تعلیمی نظام میں جدت لانا ہو گی کیونکہ رائج الوقت تعلیمی نظام کے ہوتے ہوئے ہمارے لیے ترقی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

Mohammad Furqan

Mohammad Furqan

تحریر : محمد فرقان