سرکاری ادارے

 Clock

Clock

یہ دور عدل جہانگیری نہیں کہ کوئی فریادی گھڑیال کی رسی کھینچ کر داد رسی حاصل کر لے گا اِس دور کے عوام کی داد رسی کا گھڑیال آج کا اخبار ہے جو عوام کی مشکلات اپنے اخبار کے زریعہ متعلقہ اداروں تک پہنچاتا ہے ،مگر ملک میں ایسا کوئی ایک ادار ا بھی نہیں جو عوام کوسہولتیںفراہم کرتاہو،٤،جون ١٤..، کو روزنامہ نوائے وقت کی اشاعت میں سمسون زکریا کا مراسلہ شائع ہو أ سمسون زکریانے مجھے بھی ایک کاپی بھیجی ….کہ کالم لکھا جائے،اس نے مراسلہ میں جن دستاویز کا زکر کیا وہ کسی بھی طرح مسترد نہیں کی جاسکتیں ،لیکن ،چونکہ نادرا خود مختار ریاست ہے۔

اسکا اپنا آئین اور قانون ،کسے قبول کرتا اور کسے مسترد کرتا ہیں مثلاً مڈل سنڈرڈ سرٹیفیکیٹ ،کل پاکستان سکاؤٹس آٹھویں جمبوری کوئٹہ١٨ ستمبر ١٩٨١کی سند،میٹرک کی سند کی فوٹوکاپی١٩٨٨ اصل کہیں ضائع کردی ہے جبکہ نادر ا حکام کے لئے یہ جاننا کچھ مشکل نہیں تھا کہ فوٹوکاپی پر رول نمبر ،سن اور نام درج بورڈ کے دفاتر میں محض ایک فون سے غریب کی مشکل حل ہو سکتی تھی مگر…..،ان میں اہم ترین ڈومیسائل ١٩٨٩جس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاھور کے دستخطہ مع مہر موجود ہیں دیگر دستا ویز بھی،مگر نادرا حکام کوئی دلیل قبول کرنے کو تیار نہیں صرف ایک ہی رٹ تھی کہ پہلے کیوں یاد نہ آیا ٩ برس تک استعمال کرنے کے بعد….اب جاؤ اخبار میں اشتہار دو،مجسٹریٹ فسٹ کلاس سے اشٹامپ پیپر پر بیان حلفی لاؤ۔

مطلب یہ کے دو تین دن کی قربانی….اور اشٹامپ پیپر ،یہ کوئی چھ،سات ہزار کا نسخہ ….غریب پریشان تھا کیا کروں باربار یہی سن کرمجھے تعجب ہوأ کہ ٩ برس تک اِسے استعما ل کرتے ہوئے صاف پانی پیتارہااور گویا ،٩برس یعنی ٢٠٠٥سے اب ٢٠١٤ تک ہر ہر برس نئی سجر بھینس کا دودھ بھی پیتا اور اسے خوب استعمال کیااور……. یہ نادرا کے حکام تو دوسری دنیا سے آئے ہیں یہاں پاکستان میں ان کیڑے مکوڑوں کے شب و روزکیسے گزرتے ہیں بچارے نہیںجانتے….. ،میں نے سوچاکیوں نہ اُن کی راہنمائی کے لئے ،ان ا نسان نما کیڑے مکڑوں کے بارے میں بھی لکھا جائے پرشرط یہ کہ اگر یہ تحریرسرد خانے میں بیٹھے کسی ڈی جی نادرا تک پہنچ گئی یا پھر وزارت داخلہ جہاں عوام ان کیڑے مکوڑوں کا نمائندہ بھی …… ! اِس بارے یہ کہنا ہے کہ جس قبیل سے اسکا تعلق ہے۔

انہیں شناختی کارڈ استعمال کرنے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ورنہ تو اُسی وقت ٹھیک ہو سکتا تھا مگر غریب ہے دو ایک مرتبہ چکر لگائے مگر وہاں غریب کی کون سنتا ہے اگر تو ضرورت ہوتی توپھر…..!یہی سوچکر خاموش ہو گیا کہ جب کبھی نیا بنے گا تب ٹھیک ہو جائے گا مگر غریب کو یہ علم نہیں تھا کہ اتنے برس سجر بھینسوں کا دودھ پینے کے بعد مشکلات میں مزیداضافہ … ،نادرا ،اور وزارت داخلہ کے اعلےٰ حکام کے نالج کے لئے کہ وہ اس دنیا کے لوگ نہیں وہ نہیں جانتے کہ ان غریبوں کو یہ صرف اس دہشت گردی کے دور میں ناکوں پر دکھنا ہوتا جو فوٹو کاپی سے بھی کا م چل جاتا ہے۔

اب رہا سوال استعمال کرنے کا ، نہ توانہیںبنک سے قرض لینا اور نہ ہی معاف کراناہوتا ہے ،نہ تو پاسپورٹ،نہ ہوائی ٹکٹ کی اور نہ امیگریشن کی ضرورت ،نہ ہی زمین کی خرید و فروخت،نہ گاڑی کی خرید اور ٹرانسفر اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس ،نہ ہی اسلحہ لائسنس کے لئے، بھلا یہ غریب اسے کہاں استعمال کرتا ہے: یہ تو نادرا ،اور وزارت داخلہ کے بزر جمہر ہی بتا سکتے ہیں کہ غریب کے لئے مشکلات میں اضافہ کر نے میںکہاں کہاں یہ این،آئی،سی، خُفیہ طور پر استعمال کیا جاتا رہا، اور پھر کہاں اس کی یہ ضرورت پڑتی اور کب ختم ہو تی ہے۔

Court

Court

ان سطور کی اشاعت تک شائد یہ عقدہ کھل چکا ہو گا کیو نکہ ایسی ہی مشکلات میں دھکے کھانے کے بعد ایک مجبور شہری محمد صادق، ان سے نجات کے لئے عدالت کے دروازے تک پہنچا کے اُس کے شناختی کارڈ پر والد ہی کا نام غلط درج اور مقامی سول جج جناب میاں منصور احمد نے نادرا آفس سرور روڈ کینٹ لاہور کے مینجر کو عدالت میں طلب کیا ہے ،اب و ہ یہ بتائیں گے کہ یہ کہا ں ،کب اور کیسے استعمال کیا گیا ہے اوراس سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مجبور مقہور پاکستانیوںکو شائد ریلیف مل جائے،جو نادرا کے ریاستی قوانین کے تحت انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگر تو عدالتی حکم و قانون لاگو ہو گیا تو ….ورنہ تو یہ خبر بھی زیر گردش رہی کہ سمارٹ کارڈ جبراً لاگو نہ کیا جائے ….دہاڑی دار غریب کو سمارٹ کارڈ کی ضرورت نہیں اُسے محض سادہ شناختی کارڈ ہی کافی ہے….١٦ جون کو اُس نے بتایا کے اب پھر نادرا آفس ہریکے یا غازی روڈ( نزد رینجر ہیڈ کواٹر) سے فون آیا ،ہے میں کل جاؤں گا ،پھر مسلہ وہی انہوں نے کہا کہ مٹرک کی سند کی ڈ پلیکیٹ سند لاؤ….،چاہتا تھا کہ اِس جرمانہ سے بچ جاؤں مگر یہ ممکن نہیں یہ کوئی ڈھائی ہزار کا خرچ ہے پھر یہ قربانی دینا ہی ہے ،اہل فکر غور کریں ،ایک مٹرک کی سند ،جو یہ بتاتی ہے، کہ حامل سند نے فلان سن میں مٹرک کا امتحان پاس کیا ہے دوسری دستاویز، ڈ ومیسائل جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حامل سمسون زکریا لاھور کا پیدائشی پاکستانی شہری ہے …اب دیگر دستاویز ڈومیسائل کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ مٹرک کی اصل کاپی لاؤ۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی