پیپلز پارٹی کا گڑھ لیاری

karachi lyari

karachi lyari

ہماری گاڑی میں کچھ پرابلم پیدا ہوئی تو ہم کرچی کے ایک بڑے کار ڈیلر جس سے ہم نے گاڑی خریدی تھی اُس کے ورکشاپ میں گاڑی ٹھیک کرانے کی غرض سے چھوڑ آئے۔ کئی رکشے اور ٹیکسی والوں کی خوشامد کی کہ بھائی ہمیں ہمارے گھر تک پہنچا دو۔ مگر کسی کو ہماری حالت پر رحم نہ آیا، کوئی ہمیں ہمارے گھر تک لیجانے کو تیار ہی نہ ہوا اور جو تیار بھی ہوا تو اُس نے ہم سے کرایہ اتنا مانگا کہ ہمارے حواس اُڑ گئے۔ بحالتِ مجبوری ہم نے ویگن سے سفر کرنے کی ٹھان لی کیونکہ کرچی کی ویگنوں میں سفر کرتے ہوے ہر شریف آدمی اسنیچرز اور ڈاکووں سے خوف کھاتا ہے۔

مزدور بیچارے جو ان میں بحالتِ مجبوری سفر کرتے ہیں کے پاس وہ کچھ عموماََ ہوتا ہی نہیں ہے جو ڈاکووں یا اسنیچرز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے یہ صرف ان کی گالیاں اور اور پٹائی کھا کے خاموژ ہو جاتے ہیں۔ شیر شاہ سے ہم ویگن میں سوار ہو گئے کہ اگلے اسٹاپ کے بعد پیپلز پارٹی جو سندھ میں بلا شرکتِ غیرے حکمران ہے کے گڑھ لیاری میں پہنچ گئے جہاں سے دو کالے شیدی نوجوان ویگن میں سوار ہو گئے۔ اُ ن کو دیکھتے ہی ہمارے تو گویا ہواس خراب ہوگئے ہم نے دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا اور خیر کی دُعا مانگتے رہے۔

دو اسٹاپ گذر جانے کہ بعد ویگن کے کنڈیکٹر نے گیٹ پر کھڑے نوجون سے کرائے کا مطالبہ کیا تو وہ اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا کنڈیکٹر اس بات کو نظر انداز کر کے اگلے مسافر سے کرائے کے پیسے لینے چلا گیا جب وہ دوبارہ گیٹ پر کھڑے نوجون کے پاس کرائے کا مطالبہ کرنے لگا تو اُس نوجوان نے نہایت غصے میں کہا کہ”اڑے تجھے پتہ نہیں ہے ہم کون ہیں ؟اور تو ہمارا علاقے سے گذرتاہے؟یہ بلاول زرداری کا علاقہ ہے، یہاں پر ٹکٹ کوئی نہیں لیتا ہے۔ ٹکٹ وکٹ نہیں ہے اڑے ہم اگلے اسٹاپ پر اتر جائے گا ” جب کنڈیکٹر اس کے دوسرے ساتھی کے پاس کرایہ لینے گیا تو پہلے ولا نوجون کنڈیکٹر سے پھر مخاطب ہوا ”اڑے یہ ہمارے ساتھ ہے ہم تجھ کو بولا نہ یہاں تیرا دادا گیری نہیں چلے گا” کنڈیکٹر اچھا خاصہ طاقتور تھا۔ مگر اُس نے اپنی خیریت اسی میں جانی کہ کان دبا کر آگے بڑھ جائے اور وہ دونوں نوجون فاتحانہ انداز میں لیاری کے آخری سرے پر گاڑی سے اُترکر، یہ جا وہ جا…. ہم نے کنڈیکٹر سے ہمت کر کے معلوم کیا کہ یہ کیا معاملہ تھا تو وہ بولا صاحب یہ تو روز کا معاملہ ہے۔ اگر میں ان کو نہ ٹوکتا تو یہ اپنی اگلی کاوائی شروع کردیتے۔جس سے مسافروں کی جیبوں میں کچھ بھی نہ رہتا۔

PPP Pakistan

PPP Pakistan

پیپلز پارٹی اپنے لوگوں اور دہشت گردوں کو لگام نہیں دے سکتی ہے تو دوسرے دہشت گردوں کو کس طرح قابو کر سکتی ہے؟ بظاہرجس خلوص سے نواز شریف اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا عزم لے کر آئے ہیں ،اُس خلوص کی کوئی قیمت نہیں چُکا سکتا ہے۔ ایک جانب کراچی جیسے شہر میں دہشت گرد سیاسی چھتریوں تلے دنداناتے پھر رہے ہیں۔دوسری جانب سیاسی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے اشاروں کنایوں میں کہا جا رہا ہے ”ہم سے مت اڑیو”ہم تمہیں گذشتہ سے بھی زیادہ گمھبیر مسائل میں مبتلا کر کے دکھا دیں گے….ہمارے پاس اسلحہ بھی ہے اور لوگ بھی ہیں۔ہمارے الُٹے اشارے پر ہی ہمارے روبوٹ وہ کام کر دکھاتے ہیںجس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔حالانکہ 9 ستمبر2013 کی (APC) آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے اور بعض جماعتوں نے مصلحتاََکراچی میں ٹار گیٹیڈ آپریشن کی کھل کر حمایت کی تھی۔ مگر ان جماعتوں نے جنہوں نے مصلحت کے تحت آپریشن کی ہامی بھری تھی ان کا رویہ اے پی سی کے بعد نواز شریف کی کراچی میں آمد اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے دوران ہی کھل کر سامنے آ چکا تھا ۔جس کے تحت کہا تھا کہ ہم وزیر اعظم سے فوٹو سیشن کے لئے ملاقات نہیں کر سکتے ہیں۔در حقیقت کراچی بعض جماعتوں کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ کراچی سے دہشت گردی، بھتہ خوری،اغوا برائے تاوان ،کاروں اور موٹر سائکلوں اورٹیلیفوں کا چھننا ختم ہو۔ آج بھی مہاجر علاقوں میں معمولی ٹھیلے والے سے بھی بھتہ باقاعدگی سے وصول کیا جا رہا ہے۔

جس کی اُسے باقاعدگی سے بعض علاقوں میں پرچیاں بھی دی جاتی ہیں کسی کو دس روپے کی پرچی ہے تو کسی کی سو روپے کی پرچی ہے۔ہے کسی مائی کے لال میں ہمت ہے تو ہماری بھتہ مافیہ کو روک کے دکھا دے…. کیا انہیںاُن پولس والوں کا حشر یاد نہیں جنہوں نے 21 سال قبل ہمارے راستے کی دیوار بننے کی کوشش کی تھی،آج اُن میں سے چند ایک کے سوائے کوئی بھی موجود نہیں ہے!!! اس حوالے سے امن کمیٹی اور اس کے جیالے بھی کسی سے کم تو نہیں ہیں؟؟؟ دو پولس والوں کے قتل میں ایم کیو ایم کے ندیم ہاشمی کی گرفتاری پر وا ویلا ایسے ہی نہیں ہے۔پورا شہر بند کرکے جو جلائو گھرائو ہوا وہ سب نے دیکھا۔ آج سیکٹر انچارج ہے تو اس میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔لوگ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے دہشت گرد و ں سے بے حد پریشانی کا شکار ہیں۔اپنی جان کی امان کی وجہ سے بے چارے شہری اذیت ناک زندگی گذارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔

وہ جرائم ہوتے ہوے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور خون کا گھونٹ پی کر خاموش ہو رہتے ہیں اگر زبان کھولتے ہیں تو گردن زدنی ٹھہرتے ہیں۔ کہ اُنہیں جان کی امان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اپنا اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کی غرض سے کراچی میں موجود سیاسی اور ایک دو مذہبی گروہ القاعدہ اور طالبان کے نام پردہشت گردی کر کے اُن کے نام کو ظالمانہ طریقے پر استعمال کرتے ہوے بھی نہیں شرما رہے ہیں۔ جس سے ان کے آقا بھی خوش اور وہ خود بھی نہال ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام جماعتیں اپنے اپنے غنڈوں کی بقا ء اس الزام تراشی میں ہی سجھتی ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ روزانہ کئی گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں جن میں بعض بے گناہ بھی شامل ہوتے ہیں مگر ہر ایک کے لئے شہر کیوں بند نہیں کیا جاتا ہے؟؟؟ہم نون سینس معاملات کو آڑ بنا کر ڈھائی ارب روپے کا ایک دن میں نقصان اپنے کارندوں کی حمایت میں کر بیٹھتے ہیں اور پھر بھی اس قوم کے خادم کہلانا چاہتے ہیں۔

کیا اس کا ذرّہ برابر بھی کسی کو احساس ہے!!! جیسے ہی ٹارگیٹیڈ آپریشن کا کراچی کے لئے اعلان ہوا سیاسی جماعتوں نے اپنے بڑے کریمنلز کو کنارے لگ جانے کے اشارے دیدیئے ہیں اور جب ناجائز اسلحہ جمع کرانے کی مودبانہ درخوست کی جاتی ہے تو کئی کروڑ کے اخراجات کے بعد کل چودہ ہتھیار جمع کرائے جاتے ہیں یہ کراچی میں قانون کی عمل داری ہے!!!قانوں کے ضمن میں جس قوم کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہو وہ قومی نقصان کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ کسی بڑے سیاسی پریشر گروپ کے اگر مشہور ٹارگیٹ کلِرپکڑے جاتے ہیں تو گویا آسمان سر پر اٹھا ہوا کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔

Target Operation

Target Operation

مرکزی اور صوبائی حکومتیں بظاہر کراچی بد امنی کے خاتمے کے لئے کمر بستہ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے اس بات پر اسمبلی سے واک آئوٹ کرتے بھی دیکھے جاتے ہیںکہ ان کے پکڑے گئے لوگوں کو چھوڑا جائے۔ در حقیقت سیاسی گروہ اپنے لوگوں کو کریمنل ہونے کے باوجود انہیں بے گناہ ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اکثر پرچی و بھتہ مافیہ کے لوگوں کو سندھ کے ایسے علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے جہاں وڈیرے کی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر مارنے کی جراءت نہیں کر سکتا ہے۔

لیاری کو جب تک پرچی وبھتہ مافیہ ٹارگیٹ کِلرا اور اسنیچرز سے پاک نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کراچی کا امن واپس لانا خواب و خیال کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ لیاری کے ختم ہوتے ہی اس کے چہار جانب کراچی کا وسیع کاروباری حب موجود ہے۔ جو مجرموں کے لئے آسان ٹارگیٹ ہیں۔ لیاری کے اندرونی علاقوں سے کسی کا بھی محفوظ نکلنا ممکن ہے ہی نہیں۔ جہاں جان و مال کسی طرح بھی محفوظ نہیں ہے۔ اللہ کراچی اور پاکستان کی حفاظت کرے۔

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.co