کیا کاملا ہیرس بھارتی امریکیوں کے ووٹ حاصل کر سکیں گی؟

Kamala Harris

Kamala Harris

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی امریکی شہریوں نے کاملا ہیرس کے بطور نائب صدر انتخاب کو مثبت انداز میں لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سماجی ترقی کی علامت ہے۔

امریکا میں رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن نے کاملا ہیرس کو نائب صدر کے لیے چُنا ہے۔ بائیڈن موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے مقابلے پر ہیں۔

بھارتی امریکی شہریوں نے کاملا ہیرس کے بطور نائب صدر انتخاب کو مثبت انداز میں لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سماجی ترقی کی علامت ہے۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارتی امریکی شہریوں کا قدرتی جھکاؤ اب بائیڈن اور ہیرس کا جانب ممکن ہے۔ سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں اس کمیونٹی کے تقریباً پچاسی فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی کا استعمال ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے کیا تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ سابقہ الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی امریکی ووٹرز کو متاثر کرنے کے لیے ایک اشتہار بھی دیا تھا اور اس میں وہ ہندی بول کر انہیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں تھے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ ایسے (Indian Americans) ووٹرز کی محض ایک مختصر تعداد کو قائل کر سکے تھے۔

سن 2020 کے الیکشن میں ٹرمپ اور بائیڈن کی انتخابی مہم میں بھارتی امریکی ووٹرز کو خاصی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ مجموعی امریکی آبادی میں بھارتی امریکی شہریوں کی تعداد ایک فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت امریکا میں تیزی سے پھلتا پُھولتا تارکینِ وطن کا یہی گروپ خیال کیا جاتا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے جنوبی ایشیائی پس منظر کے مسلمانوں کی رائے اپنی جانب مائل کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بعض پالیسیوں اور خاص طور پر مسلم اقلیت کے ساتھ سلوک کے حکومتی رویے پر تنقید کی تھی۔ دوسری جانب بھارتی امریکی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے آن لائن اشتہارات میں رواں برس فروری میں اپنے بھارتی دورے کی تصویر کا استعمال شروع کر رکھا ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی کاملا ہیرس کی والدہ جنوبی بھارتی شہر چنئی میں پیدا ہوئی تھیں۔ کولکتہ سے تعلق رکھنے والی سنگیتا گوپال نے اس انتخاب پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کئی برسوں سے اُن کو فالو کر رہی ہیں،” وہ ایک متاثر کرنے والی مقررہ ہیں‘‘۔ سنگیتا جو بائیڈن کی صدارتی انتخابی مہم کی ایک رضاکار بھی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کاملا ہیرس کا انتخاب ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی بھارتی امریکی ووٹرز کی رائے تبدیل کر سکتا ہے۔ ایک ایڈووکیسی گروپ ‘ہندی امریکن فاؤنڈیشن‘ کے ایک بانی رشی بھوٹاڑا کا کہنا ہے کہ شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے کیونکہ کئی بھارتی امریکی افراد ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں سے خاصے متاثر ہیں اور وہ اس میں تسلسل چاہتے ہیں۔ ہندی امریکن فاؤنڈیشن نے بھی ابھی کسی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی کاملا ہیرس کی والدہ جنوبی بھارتی شہر چنئی میں پیدا ہوئی تھیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق کاملا ہیرس ایک مضبوط امیدوار ضرور ہیں لیکن وہ یقینی طور پر کسی بڑی تبدیلی والے ایجنڈے کے لیے آواز فی الوقت بلند کرنے سے گریز کریں گی۔ اس کے باوجود ان کی شناخت میں بھارت اور جمائیکا کی آمیزش امریکی سیاسی منظر پر منفرد ضرور دکھائی دیتی ہے۔ ٹی وی سیریز سمپسن میں بھارتی کردار اپُو ادا کرنے والے کامیڈین ہیری کونڈابالُو کا کہنا ہے کہ ابھی ان کی مہم نیم گرم ہے لیکن اس سے انکار نہیں کہ وہ کئی افراد کے لیے انتہائی اہم امیدوار ہیں۔ اوریگن یونیورسٹی کی انیتا چاری نے ہیرس کو کامیابی کا نشان قرار دیا ہے۔ چاری کے مطابق ان کی شخصیت کے گرد بھارتی امریکی کمیونٹی یک جہتی قوت کے ساتھ ابھر سکتی ہے۔ انیتا چاری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیرس کو اپنی مہم اور انٹرویوز میں نسلی تعصب کے خلاف جد و جہد کو بھی شامل کرنا ہو گا۔