ایک تیرسے دو شکار

Politics

Politics

ایک سیاست دان کے بچے نے محلے کے غریب بچے کی خوب پٹائی کی جس میں غریب بچے کا سر پھٹ گیا ۔اُسے خون میں لت پت دیکھ سیاست دان کا بچہ بھاگ کر اپنے گھر گیا اور سارا قصہ اپنے باپ کوسنا دیا۔ باپ نے اُسے سمجھایا کہ وہ لوگ تیری شکایت کرنے آئیں گے تومیں تمہیں خوب ڈانٹوں گا تم روتے ہوئے بھاگ کر اندر چلے جانا میں تیرے پیچھے کوئی چیز ماروں گا لیکن فکر مت کرنا تمہیں لگی گی نہیں بس تم بھاگ جانا۔ اتنے میںغریب کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ سیاست دان کے گھر شکایت لے کر پہنچ گیا۔غریب بچے نے جاتے ہی ماں کوروتے ہوتے بتایا یہی ہے جس نے مجھے بلا وجہ مارا ،میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ اُس کی ماں نے سیاست دان سے اُس کے بچے کی شکایت کی تو وہی ہوا جو سیاست دان اور اُس کے بچے کے درمیان طے ہو چکا تھا۔

سیاست دان کا بچہ کمرے کی طرف بھاگ گیا جس کے بعد سیاست دان نے اپنے بچے کو خوب بُرا بھلا کہا اور غریب بچے کو گود میں لے کر خوب پیار کیا ۔اُسے یقین دلایا کہ وہ اپنے بچے کو سبق سکھائے گا۔سیاست دان نے جاتے ہوئے غریب بچے کو سو کا نوٹ دیا اور اپنے ملازم سے کہا جائو ڈاکٹر سے پٹی کروا دو اور سنوڈاکٹر سے کہناجب تک زخم ٹھیک نہیں ہوجاتا ان سے فیس نہ لے اُس کے پیسے ہم ادا کریں گے۔ خون میں لت پت غریب کا بچہ اور اُس کی ماں گہری چوٹ کھانے کے باوجود سیاست دان کو ڈھیروں دُعائیں دیتے ہوئے اُس کے گھر سے رخصت ہوگئے ۔اُن کے جانے کے بعد سیاست دان کی بیوی نے پوچھا جناب نے میرے بیٹے کو اُن کمیئوں کے سامنے کیوں ڈانٹا ؟سیاست دان نے جواب دیا اگر میں اپنے بیٹے کو اُن کے سامنے نہ ڈانتا تو وہ کمی ہمارے بیٹے سے بدلہ لیتا جس میں ہمارے بیٹے کو زیادہ چوٹ بھی لگ سکتی تھی اور پھر تم جاتنی ہو الیکشن سر پہ ہیں میں نے ان کمیوں سے ووٹ بھی لینا ہے۔

Drone

Drone

اب یہ لوگ مجھے ووٹ بھی دیں گے اور بدلہ بھی نہیں لیں گے۔ سیاست دان کی بیوی نے خوش ہوکر کہا آپ نے تو ایک تیر سے دو شکار کرلئے۔ غریب عوام اسی طرح سیاست دانوں کی سیاست میں آکر اپنا بدلہ اور حق دونوں چھوڑ دیتے ہیں۔ عالمی سیاست دان آپ سمجھ تو گئے ہوں گے ۔ارے یار امریکہ بہادر نے اس قسم کی مرہم پٹکی والی سیاست کو فروغ دینے کی غرض سے اقوام متحدہ بنا رکھی ہے۔ جو کبھی کسی غریب ملک کے حق میں قرارداد منظور کرتی اور کبھی کسی کمی ملک کو امداد دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ڈرون حملوں کے خلاف اسی قسم کی ایک اور قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس خبر کو بہت نمایاں حیثیت دے کر میڈیامیں شائع کیاجارہا ہے۔اقوام متحدہ اس قسم کی بے شمار قرداد یں پہلے بھی منظور کرچکی ہے۔ جن میں کشمیر میں کشمیری عوام کے حق خوداردیت کی قراردادیں بھی شامل ہیں ۔کچھ ذرائع کا ماننا ہے کہ یہ قراردادیں 65برس خاموش پڑی رہنے کے باوجود ابھی تک موثر ہیں لیکن راقم کے خیال میں قراردادیں اقوام متحدہ کی ہوں یا کسی دوسری اسمبلی سے پاس کی جائیں بالکل غیر موثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کو نہ تو قانونی حیثیت حاصل ہے اور نہ ہی ان پر عمل کروانے کا کوئی مضبوط ادارہ موجودہ ہے۔

فقت لفظوں کاجال بن کر اُس کوکسی اسمبلی میں اکثریت یا متفقہ طور پر منظورکرنے کے بعد اُسے صرف خام خیالی یا خیالی پلائو کی طرح گفتگومیں استعمال کرنے سے نہ تو کسی قوم کے حالات بدلتے ہیں نہ کسی کو حق خودارادیت ملتا ہے اور نہ کسی ملک کے جنگی عزائم میں کمی پیشی متوقع ہے ۔اگر اقوام متحدہ نے امریکہ سے مشاورت کے بعد ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد منظور کی ہے تو ڈرون پالیسی میں ردوبدل ہوسکتا ہے ورنہ 65برس پہلے کشمیری عوام کے حق خوداردیت کے حق میں پاس ہونے والی قراردادوں کے ساتھ ڈرون حملوں کے خلاف منظور ہونے والی قرداد بھی بھول بھلئے کے قبرستان میں دفن ہوجائے گی جس کاقوی امکان موجود ہے۔قرارداد کو آئینی یا عدالتی فیصلے جیسی حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے قرداد کو صرف اظہارے رائے کہا جاسکتا ہے ۔جس طرح مختلف لوگ ایک ہی موضوع پر مختلف رائے رکھتے اسی طرح اقوام متحدہ کی ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد پر عمل کرنا امریکہ یا نیٹو اتحاد کیلئے ضروری نہیں ہے۔

اگر سپرپاور میرے جیسے خیالی پلائو پکانے والوں یا پھردنیا بھر سے آنے والی مختلف آرء کو اپنی پالیسی سے زیادہ اہمیت دینے لگ جائے تو وہ سپر پاور کی بجائے سپر احمق ،سپربیوقوف بن جائے گا۔جو ابھی ناممکن لگتا ہے اس لئے میں تو یہی کہوں گا کہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور رائے دینے والے دیتے رہیں گے اور سپرپاور (عالمی سیاست دان)اپنا کام یعنی ڈرون حملوں سمیت دیگر آپریشنز کرتا رہے گا ۔ڈرون حملوں کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد کو جس قدر خوشخبری سمجھ کر آج کل میڈیا میں پیش کیا جارہاہے ٹھیک 65 برس پہلے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حق میں منظور ہونے والی قراردادوں کو بھی اسی انداز میں پیش کیا گیا تھاجو بدقسمتی سے آج تک صرف حوالوں کے طو پرلکھنے کیلئے استعمال ہوتیں ہیں۔ ایک طرف امریکہ ڈرون گرا کر ہمیں لہولہوان کرتا اور دوسری طرف امداد (یعنی بھیک) دے کر بدلہ لینے سے باز رکھتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر:امتیاز علی شاکر:کاہنہ لاہور
imtiazali470@gmail.com