ڈٹ کے کھڑا ہے اب عمران

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : اختر سردار چودھری

کیا ابن صفی کا عمران پاگل ہو گیا ہے جو 68 سال سے ظلم و ستم سہنے والوں کو حی علی الفلاح کی صدائیں دے رہا ہے، اپنا آرام چھوڑ کر اپنے محلات چھوڑ کر ، دن رات لوہے کے تپتے کنٹینر پر ،بارش میں ،طوفان میں ،شیلنگ میں ،ڈٹ کر کھڑا قوم کو جگانے کی کوشش میں طعنے سننے کے باوجود کچھ اپنوں کی بے وفائی کے باوجود، مرا جا رہا ہے ،دوسروں کی فلاح کا حریص بن گیا ہے ۔اگر پاگل ہو گیا ہے، جنونی ہو گیا ہے تو ایسے ہی نہ جھکنے والے ،نہ بکنے والے کی پاکستان کو ضرورت ہے ۔جو اصولوں پر سمجھوتا نہ کرے۔

یہ جو عمران کے ذات میںکیڑے نکال رہے ہیں اور دوسروں کو فرشتے بنا کر پیش کر رہے ہیں ان کی باتوں پر نہ جاو اس بارے میں کہنے والے کہتے ہیں کہ ایسے دانشوروں کی نظر میں عمران خان سٹیج پر سوئے تو ڈرامہ ،گھر جا کہ سوئے توکارکنان کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ عمران خان کے بچے مارچ میں شریک ہوں تو خاندانی سیاست ، عمران خان کے بچے لندن میں ہوں تو کہیں گے دوسروں کے بچے لے آیا خود کے بچے لندن میں عیش کر رہے ہیں ۔یہ ہی لوگ طاہرالقادری کے بارے میں کہتے ہیں کہ پہلے اسمبلی میں سیٹیںلے کر آو پھر تبدیلی کی بات کرنا ۔ اور عمران خان سے کہتے ہیںپہلے اسمبلی سے استعفی دو پھر بات کرو ۔

اور جب یہ ہو گیا تو پھر پہلے پارلیمنٹ میں آنے کا کہنے لگے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں کیڑے نکالیں گے آپ چاہے سونے کے بن کر آجائیںان کے لیے کوئی دلیل ، دلیل نہیں ہے ۔یہ چڑھتے سورج کے پجاری ہیں یہ کلمہ حق کا نام لیتے ہیں کہہ نہیں سکتے یہ اپنے مفادات کے غلام ہیں۔اب عام آدمی میری طرح کا یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جس میں کوئی قانون اور انصاف نام کی چیز سرے سے ہے ہی نہیںیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قانون ہے مگر عمل کا کوئی وجود ہی نہیں مگر اس کے باوجود ،دن رات قانون اور انصاف کا نام استعمال کر کے بیچاری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے .آخر یہ جنگل کا قانون کب تک رہے گاہمیشہ کے لیے پوری قوم کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا .پھر جب عام آدمی دیکھتا ہے

جب تک عمران خان نے لانگ مارچ اور قادری صاحب نے انقلاب کا علان نہیں کیا تھا ..اس وقت سے پہلے ان کے کھاتے حکمران کے کھاتوں کی طرح پاک صاف تھے مگر جب فرسودہ نظام کی تبدیلی کی بات کرنی شروع کی توان کے منی لانڈرنگ اور حسابات کے کھاتے کھول دئیے جاتے ہیں . ان کی کردار کشی کی جاتی ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون کا سہارا لیا جاتاہے اس وقت تک آپ آزاد ہیں کہ جب تک آپ صرف جائے نماز پر بیٹھ کر اپنے رب سے نا انصافیوں کا گلہ کرتے رہیں تب تک ٹھیک ہے مگر جب نا انصافیوں کے بارے میں بات کریں ،زبان کھولیں تو آپ پر مقدمات کی بارش کر دی جائے ۔ٰں تو پھر میں غلط ..اور حکمران میری زبان کاٹنے یا میری لاش گرانے یا حوالات میں بند کرنے کے احکامات صادر فرما دیں یہ ہے قانون .یہ ہے انصاف .یہ ہے اس ملک کا نظام۔

Democracy

Democracy

کیا آپ سب سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کی سیاست سے مطمئن ہیں یہ سب الیکشن کے دوران انقلاب لانے اور نظام کو تبدیل کرنے کے حق میں تھے مگر جب الیکشن ہوئے تو اپنے وعدے بھول گئے۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے ۔عمران کہہ رہا ہے کہ.پہلے نظام تبدیل کرنا ہو گا .پھر الیکشن اور جمہوریت کی بات کریں .ورنہ سب ڈرامہ اور الیکشن فضول ہیں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی .اگر عوام اپنی پسند نا پسند کو ایک طرف رکھ دیں.،علاقائی سیاست سے ذرا بلند ہو کر سوچیں،اپنی بجائے اپنے بچوں کا سوچیں اور نظام کی تبدیلی کے لئے کرپٹ امیدواروں کے خلاف میدان میں آ جائیں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ صرف باتیں کرنے سے اور کالم لکھنے سے فیس بک پر پوسٹ لگانے سے ،ٹوئیٹ وغیرہ لکھنے سے ا س قوم کی تقدیر نہیں بدلے گی اور نہ نظام تبدیل ہو گا ہم سب کو عملی مظاھرہ کرنا ہو گا تب یہ کام آسان ہو گا ۔عمران خان جو اس قوم کا ہیرو تھا بلکہ ہے

ابن صفی کا عمران اک شہزادہ ، آخر اس کو کیا ہوا یہ کیا بیماری لگ گئی کہ اس نے تاج و تخت ، دولت ، شہرت ،عزت و توقیر سب کچھ چھوڑ کر قوم کی محبت میں ،آخرت کا سوچ کر ،اللہ سے ڈر کر اپنی لٹی پٹی قوم کے کمزور بندوں کے لئے ، اپنی خوبصورت زندگی داو پر لگا دی ،اپنا گھر برباد کر لیابیوی بچے تک قربان کر دیے ، وہ طوفان ، باد باراں کے شدتوں سے بے نیاز ، لوہے کے گرم بھاپ اگلتے ، جلتے ہوئے کنٹینر( بعض اسے وی آئی پی کہتے ہیں لیکن عمران اسے ڈربہ) میںبیٹھ کر اللہ کے بندوں کو مسلسل صدائیں دے کر پکار رہا ہے کہ اے میرے وطن کے مفلسوں،کسانوں ، مظلوموں ، میرے ہاتھ میں ہاتھ دو میں تم کو اس ظلم و بربریت کے نظام سے ، غریبوں کا خون چوسنے والے عفریت سے نجات دلانے کے لئے سر پر کفن باندھ کرآیا ہوں ۔ او میرے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر ہاتھوں کی زنجیر بناو۔

کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملاو۔ وہ کہتا ہے یہ سب ملے ہوئے ہیں جنہوں نے ملک کو اب تک لوٹا ہے ،یہ سب نوراکشتی کرتے رہے ہیں ،ان کی حقیقت یہ ہے عمران خان اس یقین کے ساتھ کھڑا ہے کہ کوئی دوسرا کیا کھڑا ہو گا ۔بعض کالم نویس فرماتے ہیں کہ عمران نے مخالفین کو متحد کر دیا نہیں محترم ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا ہے کہ عمران نے ان کا متحد ہونا لیکن عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ،ان کی نورا کشتی کو ثابت کر دیا ہے سب کے سامنے آشکار کر دیا ہے ۔متحد تو وہ پہلے ہی تھے ۔اس کا قوم کو علم نہ تھا ۔یہ بجا کہ آپ بہت بڑے صحافی ہیں ،آپ کا نام ہے لیکن اب سچ اور جھوٹ آشکار ہو رہا ہے ،وطن کے لوگوں میں سچ بولنے کی ہمت آ رہی ہے ۔اور عمران کی اتنی کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے۔68 سال میںایساپہلی بار ہوا ہے۔قوم اب جاگ چکی ہے۔قارئین آپ کیا کہتے ہیں۔۔

Akhtar Sardar Choudary

Akhtar Sardar Choudary

تحریر : اختر سردار چودھری