کھپے کے بعد ٹھپے

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال زرداری کے نعرے پاکستان کھپے کے سائے میں پورے کرلیے اور پوری قوم کو لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری اور خود کش دھماکوں میں کھپا دیا لوٹ مار کا بازار گرم رہا ایک وزیر اعظم کو عدالت نے چلتا کیا تو بدنام ترین راجہ رینٹل کو وزیر اعظم بنا کر ثابت کر دیا کہ ملک و قوم کو چوروں اور لٹیروں کی قیادت ہی میسر ہوگی اور اس وقت جو جہاں برسر اقتدار تھا وہ وہیں کھل کھلا کر ڈاکے مار رہا تھا اور حکمران ایک دوسرے کے خلاف عوام کو دن رات بھڑکانے اور بیوقوف بنانے میں مصروف تھے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور مختلف القابات سے نوازا جا رہا تھا۔

اس وقت کوئی علی بابا چالیس چور تھا تو کوئی خادم اعلی بن کر حاکم اعلی بنا ہوا تھا ایک طرف سیاسی ٹھگ تھے جو اپنی اپنی دوکانداریاں سجا کر بیٹھے ہوئے تھے اور دوسری طرف عوام تھی جو دن رات غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتی جا رہی تھی آئے روز خودکشیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بجلی کے اندھیرے دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں بھی پھیل چکے تھے انڈسٹری بند ہونے پر مزدور وں نے سڑکوں پر لوٹ مار شروع کر دی پہلے تو رات کو لوٹ مار ہوتی تھے مگر مسٹر کھپے کی حکومت نے دن میں بھی لوٹ مار کے راستے ہموار کر دیے انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی عزت خاک میں ملنا شروع ہوگئی بیرون ملک دوروں کے دوران اس دور کے وزیروں کی توہین آمیز انداز میں تلاشی لی جاتی رہی اور پاکستان کی عوام غلاموں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے۔

کوئی دن ایسا نہ گذرتا جب کراچی سمیت ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ٹارگٹ کلنگ نہ ہو تی یا خودکش دھماکہ نہ ہوایک طرف عوام دہشت گردی کے ہاتھوں مر رہی تھی تو دوسری طرف لوگوں کے مالی حالات انہیں خود کشیوں پر مجبور کررہے تھے بڑی مشکل اور عوام کی بہت سی قربانیوں کے بعد جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہوئے اور الیکشن کے بعد مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بن گئی خیبر پختونخواہ میں سونامی خان برسر اقتدار ہو گیا، سندھ میں ایک بار پھر مسٹر کھپے کی حکومت بن گئی اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بن گئی عوام نے بھی کلمہ شکر ادا کیا پیپلز پارٹی کی کرپٹ حکومت سے جان چھوٹ گئی۔

Load Shedding

Load Shedding

اب ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ سے ہر طرف انڈسٹری کا پہیہ چلے گا اور بے روزگاری ختم ہوگی اور سب سے بڑھ کر علی بابا چالیس چوروں کا احتساب ہوگا اور انہیں بیچ چوراہوں میں پھانسی چڑھتے ہم اپنی انکھوں سے دیکھیں گے مگر یہ کیا ہوا ابھی تو حکومت کو آئے ہوئے جمعہ جمعہ 8 دن ہی ہوئے تھے کہ ہر طرف سے شور بلند ہونا شروع گیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہارنے والوں کو زبردستی جتوایا گیا نہ صرف جتوایا گیا بلکہ انہیں وزارت کی کرسی پر بھی بٹھا دیا گیا الیکشن کمیشن نے کچھ حلقوں کے ووٹ انگوٹھوں کی مدد سے چیک کیے تو پتہ چلا کہ وہاں پر جعلی ٹھپے لگائے گئے ایک طرف عمران خان شور کررہا تھا تو دوسری طرف آصف علی زرداری نے بھی کہہ دیا کہ جو ہوا اسکا علم تھا مگر ملکی سلامتی کے لیے برداشت کیا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اور پھر الیکشن کمیشن کی طرف سے جعلی ٹھپوں کی تصدیق ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی جعلی ٹھپوں کی بدولت اسمبلی میں پہنچنے والوں کی بھی اکثریت ہوگئی ہے۔

کھپے کے بعد ٹھپے کی حکومت نے بھی عوام کا پہلے سے بری طرح استحصال شروع کر دیا بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد عوام کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور میں جینا مشکل تھا تو مرنا آسان تھا اب جینا مشکل سے مشکل ہو چکا ہے اور مرنا اس سے بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ مرنے کے بعد کے جو اخراجات ہوتے تھے وہ کوئی اور ترس کھا کر پورے کر دیتا تھا اب تو ترس کھانے والا بھی قابل رحم ہو چکا ہے کفن دفن اور قبر کے اخراجات ادا کرنے کے لیے بھی لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے مرنا بھی مہنگا ہو چکا ہے۔

موجودہ حکومت اور اسکے چہیتے افسران کی عوام دشمن پالیسیوں کو دیکھ کر آجکل ایک لطیفہ بڑا ہی عام ہو چکا ہے کہ کسی شہر میں ایک ڈاکو رہتا تھا وہ آئے روز کسی نہ کسی راہ گذر پر ناکہ لگا کر لوگوں کو لوٹتا تھا عوام اسکی لوٹ مار سے بہت تنگ تھے ایک دن اس ڈاکو کا انتقال ہوگیا لوگوں نے ڈاکو کے مرنے پر شکر ادا کیا مگر چند دنوں بعد اس ڈاکو کے بیٹے نے اپنے والد کے کام کو سنبھال لیا لوٹ مار کے دوران ڈاکو کے بیٹے کو شک ہوا کہ لوگ کچھ نہ کچھ چھپا کر اپنے ساتھ لازمی لے جاتے ہیں اس نے ناکہ بندی کے دوران لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ انکے کپڑے بھی اتارنے شروع کر دیے۔

ڈاکو کے بیٹے کی اس حرکت کے بعد لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس ڈاکو سے تو اسکا باپ بہتر تھا جو صرف لوٹتا تھا مگر کپڑے نہیں اتارتا تھا، یہ تو ایک لطیفہ تھا کیونکہ حکومتوں کا کام ڈاکے مارنا اور عوام کے کپڑے اتارنا نہیں ہوتا بلکہ انکی زندگیوں میں آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے اور جن کے ووٹوں سے یہ حکمرانی کے تخت پر پہنچے اسی عوام کو تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا انکی ذمہ داری ہے مگر اقتدار کے ایوانوں میں لوٹ مار کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے لگتا ہے کہ ہر حکمران اپنے سے پہلے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
فون نمبر : 03466444144