تحریر : سید انور محمود اٹھارہ اگست 2008 کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف صدارت سے علیحدہ ہوئے تو اس وقت کی حکمران پیپلز پارٹی نے انہیں گارڈ آف آنر دے کر پورے عزت اور احترام کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کیا، اور کچھ عرصے بعد پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ پانچ سال بعد24 مارچ 2013 کو وہ اس امید پر وطن واپس پہنچے کہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان کا استقبال کرے گی، ان کا خیال تھا کہ وہ اب بھی عوام میں بہت مقبول ہیں، لیکن ائرپورٹ پر لوگوں کی ایک مختصر جماعت ہی موجود تھی۔ جنرل پرویز مشرف بڑے طمطراق سے پاکستان پہنچے تھے حالاں کہ اُنہیں معلوم تھا کہ ان کے زمانہ اقتدار کے تمام سیاسی ساتھیوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کےلیے آقا بدل لیے ہیں۔ اگر وہ تاریخ سے سبق سیکھ لیتے تو بہتر ہوتا لیکن شاید تاریخ سے انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اس لیےجب وہ آئے تو ان کے کھاتے میں جرائم کی ایک لمبی فہرست تھی جس میں بے نظیر کے قتل کا الزام، این آر او، لال مسجد کا واقعہ، اکبر بگٹی کی ہلاکت، ججوں کو نظر بند کرنے کا جرم، آیئن سے انحراف اور ایمرجنسی کا نفاذ شامل تھے۔
اٹھارہ مارچ کی صبح چار بجے سابق صدر پرویز مشرف تین سال پاکستان میں رہنے کے بعد واپس دبئی چلے گئے۔ سابق صدر کافی عرصے سے اپنے ‘علاج’ کی غرض سے ملک سے باہر جانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہوا تھا اور حکومت کا یہ موقف تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کو کہا تھا۔ 16 مارچ کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو اپنا کندھا استمال کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا کہ حکومت خود فیصلہ کرے کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ہونا چاہیے یا نہیں، ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق عدالت کا کوئی بھی تحریری حکم نامہ موجود نہیں ہے۔
پرویز مشرف کا نام پونے دوسال سے ای سی ایل پر تھا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاراب بھی جھوٹ بول کر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم نے عدالت کے کہنے اور مشرف کے وکیلوں کے وعدے پر انہیں علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی ہے اور مشرف چھ ہفتے بعد واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے حق میں اس قدر زیادہ دلائل دیے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید وہ مسلم لیگ نواز کے نہیں پرویز مشرف کے وزیر ہیں، بات دراصل یہ ہے کہ تمام باتوں کے باوجود خود چوہدری نثار کو اپنی بات کا یقین نہیں۔
Nisar Ali Khan
وزیر داخلہ نے کہا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو آزاد شہری قرار دیا تھا، انہیں مشرف کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق کوئی خبر نہیں تھی، نہ اس بارے میں اسلام آباد پولیس نے بتایا اور نہ ہی یہ وزارت داخلہ کا کام ہے۔ پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 سے لے کر 3 نومبر 2007 تک لگائے گئے تمام الزامات کا تن تنہا مقابلہ کرتے رہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہے، وہ یہ سب کر چکے لیکن پھر بھی کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ ابتداء سے ہی حکومت کی اس حوالے سے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف 1999 کی بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جاتا لیکن اس کے بجائے نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا بنایا گیا، مقصد یہ تھا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ نواز شریف پرویز مشرف سے ذاتی انتقام لے رہے ہیں۔
اس سال جنوری میں عدالت نے 2006ء کے نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں پرویزمشرف کو بری کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ سابق صدر کو دیگر چار مقدمات کا سامنا ہے، جن میں ہنگامی حالت کا نفاذ، عدلیہ کی غیر قانونی برطرفی، بے نظیر قتل کیس اور اسلام آباد کی لال مسجد میں ہونے والی ہلاکت خیز کارروائی شامل ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین بلاول زرداری سمیت کئی افراد نے پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹانے اور پھر انہیں علاج کے غرض سے ملک چھوڑ کر جانے کی اجازت دیے جانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بلاول زرداری نے مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر فیصل رضا عابدی نے ٹویٹ کی ہے کہ ‘لال مسجد کارروائی، افتخار چوہدری کا معاملہ اور 3 نومبر کا اقدام، سب فیصلے آئینی تھے’، کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ ان کے خلاف مقدمات چلائے جاتے۔ ایک ٹی وی اینکرنے لکھا کہ ‘مشرف کو جانا ہی تھا، سول فوجی تعلقات کا بہتر ہونا مشرف کے جانے پر ہی منحصر تھا، یہی پاکستان ہے’، جبکہ ایک دوسرے اینکر نے لکھا کہ ‘مشرف اور زرداری کاعلاج کے غرض سے ملک سے جانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں صحت کا نظام کس خستہ حالی کا شکار ہے’۔
Pakistan
پرویز مشرف کے پاکستان آنے سے قبل مسلم لیگ (ن) اور اس کے ہمنوا یہ کہتے رہے کہ پرویز مشرف اب پاکستان نہیں آئیں گے، پھر جب تین سال پہلے وہ پاکستان آگئے تو اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وزراء پرویز مشرف کی کردار کشی کرتے رہے۔ نواز شریف میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ وقتی طور پر خاموش ہو جاتے ہیں لیکن بدلہ لینے کی تاک میں رہتے ہیں۔ نواز شریف نے اپنی سی کوشش کی بھی لیکن اپنے سابق چیف کو بچانے کے لیے پاکستانی فوج آڑے آ گئی اور نواز شریف پرویز مشرف کا ککھ بھی نہ بگاڑ سکے۔
اس مرتبہ شاید وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نواز شریف کو بہت اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ بہتر ہوگا سابق صدرکے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں ورنہ کہیں 1999 کی تاریخ نہ دہرا دی جائے۔ نواز شریف کو یہ کسی صورت منظور نہیں تھا، لہٰذا سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ لے کر اور اپنے میں پرویز مشرف کو روکنے کی ہمت نہ پاکر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے پرویز مشرف کو جانے دیا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو حکومت تنقید کی زد میں رہتی اور اب جانے دیا گیا ہے تو بھی اس پر تنقید کی جارہی ہے۔
لیکن اس فیصلے کا فائدہ کسی کو ہو یا نہ ہو نواز شریف حکومت کو ضرور ہوگاکیونکہ اس فیصلے سے سول ملٹری تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ نواز شریف اوران کے ہمنواوں کو چاہیے کہ اب دعا کریں کمانڈو واپس نہ آئے کیونکہ ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود ان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ پرویزمشرف کو ایک رات حوالات میں رکھ سکیں۔ عام طور پر خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ سابق صدر کے واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں، لیکن اگر وہ واپس آتے ہیں تو حکومت کو پریشانی اور پاکستان فوج کوشرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔