وزیراعظم لاعلم، بااثر بیوروکریٹس نے اربوں کی زمین الاٹ کرا لی

Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کورونا وائرس کی وبا کے دوران اس وقت غیر اور مستحق افراد کو خوراک کی فراہمی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے پیسہ جمع کرنے کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں، مرکز اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی کے کئی با اثر افسران نے اپنے لیے اربوں روپے کی سرکاری زمین حاصل کر لی ہے۔

تقریباً 12؍ ایسے وفاقی بیوروکریٹس ہیں، جن میں کچھ ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں، کو اسلام آباد میں دوسرا رہائشی پلاٹ الاٹ کر دیا گیا ہے اور اس مرتبہ انہیں یہ پلاٹ مہنگے ترین D-12 سیکٹر میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی میں دیا گیا ہے۔

نہ صرف 2007ء میں جنرل مشرف کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی گریڈ 22؍ کے افسر کو خوش کرنے کیلئے دوسرے پلاٹ کی یہ پالیسی انتہائی متنازع رہی ہے بلکہ اس سے وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری اور سرکاری وسائل کی منصفانہ تقسیم کی پالیسی کی بھی نفی ہوتی ہے جس میں غریب اور مستحق کو ترجیح دینا شامل ہے۔

اس کے علاوہ، وزیراعظم کے انسپکشن کمیشن کے رکن اور سابق وفاقی سیکرٹری نے بھی ڈی 12 سیکٹر میں پلاٹوں کی چند مخصوص افسران میں بندر بانٹ کی سخت مخالفت کی تھی اور اسے امتیازی اقدام قرار دیا تھا۔ ہر پلاٹ کی قیمت تقریباً 4؍ کروڑ روپے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ دوسرا پلاٹ وصول کرنے والے زیادہ تر افراد کو یہ پلاٹ ترقی یافتہ سیکٹر میں غیر شفاف انداز میں دیا گیا جبکہ ان کے سینئر عہدیداروں کو سیکٹر F114 /15 میں یا پارک روڈ پروجیکٹس میں ملا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ الاٹمنٹ حال ہی میں اس وقت کی گئی جب وزیراعظم عمران خان کی تمام تر توجہ کورونا سے لڑنے پر اور لاکھوں بیروزگار اور لاک ڈائون کی وجہ سے ملازمت کھو دینے والے افراد کی مدد پر مرکوز تھی۔

اسی وقت جب فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد میں منتخب افسران کو رہائشی پلاٹس دے رہی تھی، جیو کے سینئر نمائندے اعزاز سید نے چند روز قبل بتایا تھا کہ کس طرح پنجاب کابینہ نے پاک فوج کے شہداء کے اہل خانہ کیلئے مختص اربوں روپے مالیت کی 775؍ ایکڑ زمین 47؍ من پسند عہدیداروں اور سرکاری ملازمین میں بانٹ دی۔

مستفید ہونے والوں میں اہم وفاقی سیکرٹری اور کچھ باورچی، قاصد، مالی اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشل لاء کے دوران طاقتور لوگوں کی خدمت کی تھی۔ پنجاب کابینہ نے زمین کی الاٹمنٹ کی منظوری 30 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں دی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ یہ الاٹمنٹس اصل میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی تھی جب یہ زمین اُن سویلینز کو دی گئی تھی جنہوں نے براہِ راست ان کے ماتحت کام کیا تھا جن میں ان کے باورچی، قاصد، مالی یا وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مشرف حکومت میں کام کیا تھا۔

اگست 2008ء میں اقتدار سے سابق فوجی آمر کے جانے کے بعد پنجاب میں شہباز شریف کی منتخب حکومت نے زمین کی اس الاٹمنٹ پر اعتراض کیا کیونکہ یہ زمین اصل میں پاک فوج اور اس کے شہداء کے اہل خانہ کیلئے مختص تھی۔

اُس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے نہ صرف الاٹمنٹ معطل کی بلکہ ایسے لوگوں کیخلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی جنہیں یہ زمین الاٹ کی گئی تھی۔ لیکن اب عثمان بزدار کی حکومت نے اُسی اقدام کی منظوری دیدی جو پرویز مشرف نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا تھا۔

کچھ سال قبل، دی نیوز نے خبر دی تھی کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں 10؍ ہزار کنال سے زائد زمین، جو عسکری اداروں کے شہداء کے اہل خانہ کیلئے مختص تھی، جنرل پرویز مشرف نے اپنے من پسند افراد اور سیاست دانوں میں غیر قانونی انداز سے بانٹ دی۔ تاہم، نیب نے اور نہ ہی کسی اور ادارے نے اس غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات پر توجہ دی جو آمر نے اپنے من پسند افراد میں بانٹ دی تھی۔

وفاقی سطح پر اور عمران خان کی موجودہ حکومت کے دوران، شفاف اقدامات کر رہے ہیں اور وہ وزیراعظم کی انسپکشن ٹیم کا رکن بھی ہیں، ان کا یہ فرض ہے کہ وہ اچھی طرز حکمرانی اور حکومت میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔ 2006-07ء سے ہی گریڈ 22؍ کے افسر کو اسلام آباد میں ایک کنال کا اضافی پلاٹ دیے جانے کی پالیسی متنازع رہی ہے، اُس وقت اس پالیسی کی منظوری شوکت عزیز نے بحیثیت وزیراعظم دی تھی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سینئر سرکاری ملازمین کو ایک کنال کے دو پلاٹس ملیں گے۔ ایک پلاٹ اسے 22؍ گریڈ کے افسر کی حیثیت سے جبکہ دوسرا پلاٹ سرکاری ملازم کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ پر ملے گا۔

اسی پالیسی کو سپریم کورٹ کے ججوں کیلئے بھی 2006-07ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس پالیسی پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اعتراض کیا تھا اور حکومت کی جانب سے معاشرے کے بااثر لوگوں کو سرکاری وسائل کی بندر بانٹ پر از خود نوٹس لیا تھا۔

تاہم، 3؍ نومبر 2007ء کو پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد، اس وقت کے پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے یہ معاملہ بند کر دیا۔پالیسی پر اسلئے تنقید کی جا تی رہی ہے کہ آخر کیوں منتخب افراد کو اسلام آباد میں دو رہائشی پلاٹس دیے جائیں۔ لیکن کسی بھی حکومت نے اس پالیسی کو ختم کرنے کی جرأت نہیں دکھائی۔

دوسرے رہائشی پلاٹس کی الاٹمنٹ کیلئے ہمیشہ سے یہ اصول اختیار کیا گیا ہے کہ دستیاب پلاٹس سینئر افسران کو الاٹ کیے جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ریٹائر ہونے والے ہیں یا جو ریٹائر ہو چکے ہیں؛ انہیں ترجیح دی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق، چونکہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کوئی نیا سیکٹر نہیں بنایا، اسلئے گریڈ 22؍ کے افسران کو ڈویلپ سیکٹر میں 2011ء سے کوئی پلاٹ نہیں ملا اور 2011ء کے بعد 22؍ گریڈ میں پروموٹ ہونے والے تمام افسران کو بتایا جاتا ہے کہ وہ انتظار کریں تاکہ سیکٹر ایف 14، سیکٹر ایف 15 اور پارک روڈ تعمیر ہو جائیں۔

تاہم، 22؍ گریڈ کے کچھ درجن بھر خوش قسمت افسران ایسے ہیں جنہیں سیکٹر ڈی 12؍ میں پلاٹ دیدیا گیا ہے جو مکمل طور پر ڈویلپڈ ہے اور انتہائی پرتعیش ہے کیونکہ اس سیکٹر میں پلاٹ کی اوسط مارکیٹ قیمت 4؍ سے ساڑھے 4؍ کروڑ روپے تک ہے۔

اچھی ساکھ کے حامل ایک ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری ابو عاکف، جو فی الوقت وزیراعظم کی انسپکشن کمیٹی کے رکن ہیں، نے یہ معاملہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی کےروبرو پیش کرکے طوفان مچا دیا ہے۔

انہوں نے اقربا پروری اور دھوکے بازی کا الزام عائد کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اگر سی ڈی اے نے گریڈ 22؍ کے سینئر سرکاری ملازمین کیلئے زمین الاٹ کی ہے تو اصولی طور پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ پلاٹس سینیارٹی کے اصول کے مطابق یا قرع اندازی کے ذریعے اہل افسران کو دیے جاتے۔

انہوں نے معلومات تک رسائی کی آزادی کے قانون (فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ) کے تحت فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاٹمنٹ سے جڑی تمام تر دستاویزات اور لین دین کے متعلق تفصیلات فراہم کی جائیں۔

ایک ناراض افسر کے مطابق، یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ اچھی طرز حکمرانی، قوائد کی پاسداری اور شفافیت کی یقین دہانی کرانے کیلئے تشکیل دی گئی وزیراعظم کی انسپکشن ٹیم کا رکن انصاف کا متلاشی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی کو ترقی پانے والے افسران کی فہرست وزارت ہائوسنگ کے ذریعے فراہم کرتی ہے تاکہ انہیں اسلام آباد میں پلاٹ مل سکے۔

گزشتہ 7؍ سے 8؍ سال کے دوران ہائوسنگ اتھارٹی تمام سیکریٹریوں اور گریڈ 22؍ کے افسران کو پارک انکلیو کے قریب مجوزہ سیکٹر ایف 14، ایف 15؍ میں عبوری الاٹمنٹ کر رہی ہے۔

سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک ہائوسنگ سوسائٹی گریڈ 22؍ کے سیکڑوں افسران، کئی ریٹائرڈ افسران اور تاحال ملازمت پر موجود افسران کو نظرانداز کرکے صرف منتخب افسران کے گروپ کو ترقی یافتہ ڈی 12؍ سیکٹر میں الاٹمنٹ کیسے کر سکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ نہ صرف 100؍ سے زائد سینئر سرکاری ملازمین پلاٹ کی الاٹمنٹ کے منتظر ہیں بلکہ پالیسی کہتی ہے کہ سینئر ترین افسر اور ریٹائرڈ ہونے والے افسر کو ترجیحی بنیادوں پر پہلے پلاٹ دینا چاہیے۔

ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے اور اسے وزیراعظم کے روبرو پیش کرکے نمایاں کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اختیارات کا صریح ناجائز استعمال اور کرپشن ہے۔