سیاست، کھیل ہی تو ہے

Pakistan

Pakistan

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔اس وقت سے لے کر اب تک سیا ست کا کھیل جاری ہے ۔بڑے کھلاڑی ، چھوٹے کھلاڑیوں کو مات دے کر ملک پر حکومت کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیا ست ابھی تک کھیل کا میدان ہی ہے۔ اگرسیاست کھیل کا میدان نہ ہوتی تو ملک میں جمہوریت ہوتی۔ میں نے تو اب تک جمہوریت کا نام سنا ہے۔ جمہوریت دیکھی نہیں۔ واقعی سیاست کھیل کا میدان نہیں ہے تو اب تک باری کی حکومتیں کیوں چلی آرہیں ہیں؟ پیپلزپارٹی حکومت میں آتی ہے تو مسلم لیگ اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہے۔

مسلم لیگ حکومت برسراقتدار میں ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی اپوزیشن کاکردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ مک مکا کر کے ایک دوسرے کو ملک کی باگ ڈور سنبھال دیتے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ سیا ست کھیل کا میدان نہیں ہے تو اب تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے علاوہ کوئی اور پارٹی برسر اقتدار کیوں نہیں آئی۔ اگر ملک میں واقعی سیاست کا وجود ہوتا تو جو کچھ ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے کم از کم ایسے حالات ملک میں نہ ہوتے۔

سیاست شطرنج کے کھیل کی طرح تو ہے جس نے چالاکی سے کھیلا وہی بادشاہ بن گیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کھیل میں سیا ست داخل ہو گئی ہے۔ جب سے کھیل میں سیاست آئی ہے پاکستان ورلڈ کپ نہیں جیتا۔ سیاست سے میچ ہار جاتے ہیں اور قوم کو مایوس کرتے ہیں۔کھیل میں سیاست نہ ہوتی تو شاہد خان آفریدی بھار ت میں میچ نہ ہارتا۔ بیچارے شاہد خان آفریدی تو نہیں مان رہے تھے لیکن رحمان ملک نے منوا ہی لیا۔ پھر قوم نے بھی دیکھا رحمان ملک کی دعوت پر شاہد خان آفریدی ان کے ہاں سیاست خانے گئے۔ جب تک خان نہیں مانے بیچارے کھیل سے باہر ہی رہے۔

PPP

PPP

سیاست اگر کھیل نہیں تو پیپلزپارٹی کی حکومت میں بے نظیر کے قتل کا سراغ کیوں نہیں ملا۔ زرداری صاحب پانچ سال حکومت کر گئے اپنی بیوی کا قاتل نہ ڈھونڈ سکے۔ڈھونڈتے بھی تو کیسے اگر قاتل مل جاتا تو سیاست کے میدان ویران ہو جاتے ، سیاست کا کھیل ختم ہو جاتا۔ جس طرح آج کل ملک میں کھیلوں کے میدان ویران پڑے ہیں۔ سری لنکا کی ٹیم پر حملہ سیا ست ہی تھی۔ اسی سیا ست نے کھیل میں داخل ہو کر تمام کھیل بگاڑ دیا۔ سیاست ہی تو ایسا کھیل ہے جس میں نقصان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ چاہے صدارت کی کرسی پر برجمان ہوں یا اپوزیشن میں۔ بنک بیلنس میں کمی نہیں آتی۔ کمی آتی ہے تو غریب عوام کے گھرانے میں، یا تو ان کا کوئی لخت جگر سیاست کے کھیل کی بھنیٹ چڑھ جاتا ہے۔ یا سیاست ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتی ہے۔ سیاست کے کھیل نے ملک کو قرضوں کی بھنیٹ چڑھا دیا ہے۔ عوام ملک کا قرضہ اتار اتارکر خود قبروں میں اترتی جاتی ہے مگر ملک کا قرضہ نہیں اترتا۔ البتہ سیاست کے کھلاڑیوںکا بیرونی بنکوں میں بیلنس پڑھتا ہی رہتا ہے۔

یہاں کھیل ختم ہوا وہاں جا کر پڑائو ڈال لیا۔کاروبار وہی پر ، فیملی وہی پر ۔ یہاں تو صرف اور صرف کھیل کھیلنے آتے ہیں ۔کھیل ختم تو بوریا بستر اٹھایا اور مغربی دُنیا میں جا ٹھہرے۔ بیچاری عوام کا کون ہے ؟ جو اس کے ملک کا قرض اتارے۔کبھی قرض اتارو، ملک سنوارو کی سکیمیں چلتی ہیں تو کبھی کشکول اٹھانے پڑتے ہیں۔کبھی ٹیکس بڑھا کر ، تو کبھی بجلی کے نرغ بڑھا کرخزانے بھرے جاتے ہیں۔ بیچاری عوام خون پسینہ ایک کرکے ملک کو سنوارنے میں لگی رہتی ہے اور سیاست کے کھلاڑی عوام کو کھانے میں لگے ہیں۔ واحد ملک پاکستان ہے جہاںسیاست کے کھلاڑی بہت ہیں۔ ان کھلاڑیوں کا تمام خرچ عوام ہی اٹھاتی ہے۔ عوام اپنے بچے بیچ کر ان کھلاڑیوں کے بچے پالتی ہے۔کبھی آپ نے سنا ، یا دیکھا ہو کہ کسی سیا ست کے کھلاڑی نے غریب عوام کا ایک بچہ بھی پا لا ہو۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جتنا روپیہ ان کی جانوں کی حفاظت پر
خرچ ہوتا ہے عوام اپنے اوپر خرچ کرلے تو ملک ترقی کی میدان میں سب سے آگے ہو۔ لیکن کیا کریں اس ملک میں سیاست کا کھیل اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ باقی کسی کھیل کا وجود باقی نہیں رہا۔ اتنے تو کسی ملک کے وزیر، مشیر نہیں ہوں گے جتنے اس بیچارے ملک کے ہیں۔

عوام پھر ان وزیروں ، مشیروں کو بلٹ پروف سیکوڑٹی فراہم کرتی ہے اورخود ڈروان یا نامعلوم گولیوں کا نشانہ بنتی ہے۔ جائزہ لیا جائے تو واحد ملک پاکستان ہے جس کے وزیروں ، مشیروں ، صدر، وزیراعظم کی سیکوڑٹی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت محرم الحرام پر ایک شخص کی حفاظت کے لئے 65 افراد معمور ہوئے۔کتنی افسوس ناک بات ہے جس ملک کے حکمران اپنی حفاظت نہیں کر سکتے وہ عوام کی خاک حفاظت کریں گے۔ جب اس ملک میں جمہوریت نہیں قائم ہوتی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس وقت تک عوام ہی قربان ہو تی رہے گی۔ ہمیں سیاست کو کھیل سے اور کھیل کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا۔ تب جاکر یہ ملک ترقی کی تمام منزلیں طے کرے گا۔ تو آئیے یک جان ہوکر اس ملک میں خالص سیاست کا وجود قائم کریں اور کھیلوں سے سیاست کو پاک کریں۔ پھر اس ملک میں جمہوریت ہوگی اور ہمیں جمہوریت نظر بھی آئے گی۔انشااللہ!

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
(majeed.ahmed2011@gmail.com)