صدا کرچلے

Pakistani Seniors

Pakistani Seniors

حضرت سعدی کہتے ہیں کہ ایک بزرگ کا گزر ایک مرتبہ کسی ایسی بستی سے ہوا جہاں کتوں کی بہتات تھی چنانچہ رات کے وقت جب وہ یہاں محو سفر تھے تو اچانک چند شرارتی کتے اپنے درمیان کسی اجنبی کو پاکر اس پر حملہ آور ہوئے چنانچہ ان بزرگ صاحب نے اپنے بچاؤ کیلئے زمین کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ کوئی پتھر ہاتھ میں رکھ لیں جوان کے دفاع میں معاون چابت ہوگا لیکن یہ کیا زمین میں دھنسے پتھر وہ نہ اٹھا سکے اور کتے ان کے سر پر آن پہنچے جس کی وجہ سے انہیں جان بچاکربھاگنا پڑالیکن بھاگتے ہوئے انہوں نے جو الفاظ کہے وہ آج کے ہمارے پیارے پاکستان کی صوررت حال پر پورے صادق آتے ہیں۔

انہوں نے کہا”لعنت ہے ایسی بستی والوں پر جنہوں نے کتے تو آزاد چھوڑ رکھے ہیں لیکن پتھر باندھ رکھے ہیں”اسی طرح کسی انگریز کا مقولہ ہے جو ایک روپیہ چرائے وہ چور ہے اور جو ایک لاکھ روپے چرائے وہ فنکار ہے ملکی سیاست پر ایسے ہی فنکاروں کا قبضہ ہے جنہوں نے پہلے تو پانچ سال عوام کو خوب لوٹاتمام اداروں کا بیڑا غرق کردیا کبھی غربت،مہنگائی ،بیروزگاری،او ردہشتگردی کے عفریت نے قوم کو بے حال کیا تو کبھی ملکی تاریخ کے بدترین توانائی بحران نے عوام کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔

کبھی تعلیمی پسماندگی اور ساڑھے تین کروڑ پاکستانیوں کے شرح غربت سے نیچے جانے نے ہمارا مذق اڑایا تو کبھی بدامنی کی بھٹی نے ہمارے جسموںاور دلوں کو جلائے رکھا ،کبھی کرپشن و بدعنوانی میں ہمیں آئے روز تمغے ملتے رہے تو کبھی بدترین گورننس اوراقرباء پروری ہماری بداعمالیوں کی سزابنتی رہی ۔دوسری جانب ایوان اقتدار تک پہنچنے والے ان معززین کی اپنی حیثیت کا یہ عالم ہے کہ جعلی ڈگریوں کیساتھ اور کروڑوں کے بنک بیلنس کیساتھ غریب عوام کی نمائندگی کرنے والے جاتے ہوئے کروڑوں سے اربوںاور اربوں سے کھربوں پتی بن چکے ہیں۔

حلال کمائی”سے انہیں ٹیکس ادا کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی اور یہ لوٹ مارکا سلسلہ 16مارچ کے آخری لمحات تک جاری رہا ان عوامی ”غم خواروں”نے جس طرح جاتے جاتے قومی خزانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ پیر دھوئے اور اپنے لئے تاحیات مراعات کے بل پاس کرواکر عوام سے ”جمہوری انتقام ”لیا گیا ماضی ایسی بدترین مثال کسی آمرانہ دور میں بھی نہیں ملتی۔آج پیپلزپارٹی اوراس کے اتحادی ارکان پانچ سالہ جمہوری دور کی تکمیل کو اپنی بڑی کامیابی گردانتے ہیں جس کا کریڈت بحرحال حکومت کو جاتا ہے لیکن ان سے یہ کون پوچھے گا کہ انہوں نے جاتے ہوئے قومی خزانے میں عوام کیلئے چھوڑا کیا ہے۔

Dollar

Dollar

خزانے میں اس وقت صرف 8ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں جن میں سے پانچ ارب ڈالر حکومت کو قرضوں کی ادائیگی اور سو کی مد میں آئی ایم ایف کو دینا پڑیں گے باقی بچ جانیوالی رقم اتنی بھی نہیں بنتی کہ اس سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ہی دی جاسکیںاس لئے لازمی طور ایک بار ہمیں ان صیہونی اداروںکے پاس جانا پڑے گا جو ہمیں قرض تو دے دیں گے لیکن ان کی کڑی شرائط قوم کے گلے میں پہلے سے موجود طوق کا وزن مزید بڑھا دیں گی لیکن اس وقت یہ فنکار نہیں ہوں گے اور یہ قرض اس عوام کی پشت پر ہی ہوگا۔

جس ہرفرد پہلے ہی 83 ہزارروپے کا مقروض ہے واقعی یہ کام کوئی ماہر فنکار ہی کرسکتا تھا ہے جس کی داد ہمیں اپنے ”معزز ارکان اسمبلی”کو ضروردینی چاہئے ۔ان معززین کی پھرتی اور فنکاری یہیں پر ہی ختم نہیں ہوئی جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں جمہوریت کے یہ بلندوبانگ دعوے دار اایک بار پھر عوام کے سامنے نئے نئے نعروں اور عزائم کیساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں ایسے میں ایسے گھاگ اور ”جہاںدیدہ”سیاستدانوں کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہیں جن کے دل ہر وقت ”عوام کے غم”میں غرق رہتے ہیں۔

اسی غم نے انہیں پانچ سال تک آرام سے نہیں بیٹھنے دیا اوردن رات عوام کی” خدمت”کے بعد اب عوام کے ”وسیع تر مفاد ”میں وہ ان نئی پارٹیوں کی طرف اڑانیں بھررہے ہیں جو آئندہ انتخابات میں کامیابی کا زیادہ چانس رکھتی ہیں یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن پارٹیوں میں یہ اصحاب تشریف لے جارہے ہیں ان کے بارے اور اس پارٹی کی قیادت کے بارے میں ماضی میں انہوں نے فرمودات جاری کئے تھے انہیں سن کر ایک عام آدمی دنگ رہ جاتا ہے ان میں خورشید احمد قصوری صاحب کا نام سرفہرست کہا جاسکتا ہے جو اب تک چار جماعتیں تبدیل کرچکے ہیں۔

حال ہی میں دو میاں بیوی جو کل تک ن لیگ کی قیادت کو ہر برائی کی جڑ قراردیتے نہیں تھکتے تھے اور لوٹوں کیساتھ باقاعدہ احتجاج کیاکرتے تھے اور بڑے جوش و جذبے کیساتھ لوٹے ٹھاہ ،لوٹے ٹھاہ کے”ایمان افروز”نعرے بلندکیا کرتے تھے آج اسی ن لیگ میں شامل ہوچکے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے اپنی اس ”اصول پسندی” کی وکالت بھی کرتے نظرآتے ہیں۔آخر میں عوام سے درخواست ہے کہ وہ اس بار اپنے قیمتی ووٹ کا حق سوچ سمجھ کر کریں۔

اس کیلئے کسی وڈیرے،جاگیردار،صاحب اور باس کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز سنیں ورنہ یاد رکھیں اگر اس بار بھی آپ نے انہی آزمائے ہوئے خدمتگار نما ”فنکاروں”کو ہی منتخب کیا تو کل آپ ہی کبھی بجلی کا دوہزار روپے بل نہ دینے اور کبھی چند کلو آٹا چرانے کے جرم میں جیل کی سزا بھگتیں گے اور یہ لوگ پورے ملک کو لوٹ کر بھی سرخرو اور کامران ٹھہریں گے کیوں کہ یہ تو فنکار ہیں۔

Qasim Ali

Qasim Ali

تحریر : قاسم علی