کشمیر کے مسئلہ کا حل ممکن ہے !

Kashmir Solidarity Day

Kashmir Solidarity Day

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
۔کشمیر کے تین حصے ہیں ۔ایک مقبوضہ کشمیر اس پر بھارت کا قبضہ ہے ،اس کا دارالحکومت سری نگر ہے ۔دوم آزاد کشمیر یہ پاکستان سے ملحق ہے اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے ۔سوم اکسائی چن کشمیر یہ بھی کشمیر کا ہی ایک حصہ ہے لیکن یہ چین کے زیر انتظام ہے۔

ویسے کبھی گلگت اور بلتستان بھی اس کا حصہ رہے ہیں ۔بھارت اس وقت خط کشمیر کے سب سے بڑے حصے یعنی 387101 مربع کلومیٹر پر قابض ہے ۔جبکہ پاکستان کے زیر انتظام 84685 مربع کلو میٹر اور چین 55537 مربع کلومیٹر حصے پر اختیار رکھتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے پاکستان اسے اپنی شہہ رگ اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں اب تک ان کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔

1947 کی جنگ ، 1965 کی جنگ اور کارگل کی 1999 کی جنگ ۔
اقوام متحدہ نے 1948 میں قرار داد کے مطابق عوامی رائے شماری کا اہتمام کرنا تھا ۔مگر اقوام متحدہ کی پالیسی بھی دوغلی ہے ۔مسلمانوں کے اور دیگر مذاہب کے لیے الگ ۔اسی کو سامنے رکھتے ہوئے۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ سکاٹ لینڈ میں رائے شماری ہو سکتی ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں۔ بین لاقوامی برادری مسئلہ کشمیر پر کیوں گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔

Pakistan

Pakistan

کشمیر سے متعلق عالمی برادری فرض پورا نہیں کر سکی۔ بین الاقوامی برادری کشمیر کے معاملے میں مداخلت کرے ۔پاکستان کا موقف اصولوں پر مبنی ہے ۔کشمیر میں 8 لاکھ فوجی و نیم فوجی تعینات ہیں ۔اور آئے روز کشمیروں کے حقوق سلب کرتے ہوئے انہیں دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے ۔مقبوضہ وادی کے کشمیری اپنے حق خود ارادی کے لیے جہدوجہد کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے پاکستان اپنے بھائیوں کی ہر ممکن اخلاقی،سفارتی ،سیاسی مدد جاری رکھے گا۔

۔ آخر کشمیر کب آزاد ہو گا؟ کب تک یہ کشمیری بہن بھائی ظلم سہتے رہیں گے؟ کب تک یہ دشمن ہمارے بہن بھائیوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے؟کب تک آخر کب تک کشمیری بچوں پر ظلم ہوتا رہے گا ؟ آج کل کشمیر میں مسلمانوں کا جو حال ہے اگر کبھی کسی مغربی ملک کے ساتھ ایسا ہوتا تو ساری دنیا اس طرف توجہ دیتی ،ویسے تو مغربی ممالک آزادی ،آزادی کی رٹ لگاتے ہیں ،بھارت بھی یہ کہتا نہیں تھکتا کہ آزادی سب کا حق ہے ،مگر کشمیریوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا ۔کیوں ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی؟ کیا انہیں انسانوں میں سے نہیں سمجھتے؟ کیا وہ ہمارے مسلمان بہن بھائی نہیں؟

کیا ان کو بھی جینے کا حق نہیں؟ میرے ان سوالوں کا جواب کس کے پاس ہے؟ حکومت کے پاس نہیں تو پھر کس کے پاس؟۔ ہمارے جذبے کہاں گئے؟ ہمارے دعوے کہاں گئے؟ایک بہت کڑوا سوال اپنی حکومت سے جو اب ہے اور ان سے بھی جو پہلے حکومت میں رہے ہیں ۔پوچھنا یہ ہے کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ذرا سوچیں اور جواب دیں جب ہمارے پاکستان کی شہ رگ ہی دشمن کے قبضے میں ہے تو ۔یہ شہہ رگ اس سے آزاد کیوں نہیں کروائی جا رہی ۔ کشمیر کو آزاد کروانے کیلئے دعا کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورہے۔

ہم ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسا لائحہ عمل اپنائیں جس کی وجہ سے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہو سکیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے ۔ یہ کہ اس کے حل کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے ،کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے کہ وہاں رائے شماری ہو کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہتے ہیں اس سے الحاق کر لیں اس کے لیے بھارت کی فوج واپس بلائی جائے اور وہاں اقوام متحدہ خود اپنی فوج بھیج کر رائے شماری کرائے ۔اور یہ ہی حل سب سے بہترین ہے ۔دوسرا حل جو پرویز مشرف صاحب دیتے رہے ہیں اس سے بہت سے اعتراض کرتے ہیں وہ ایک الگ ریاست کا قیام ۔اقوام متحدہ جو استصواب رائے کروائے اس رائے شماری میں تین آپشن ہوں کیا کشمیری اپنا الحاق بھارت سے کرنا چاہتے ہیں ،پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں یا آزاد الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔یہ سوال کشمیر کے تینوں حصوں میں بسنے والے کشمیریوں سے ہو ۔جس میں مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیر ،گلگت ،بلتستان ،اور اکسائی چن کے علاقے وغیرہ

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال