انقلاب، اصلاحات اور تحریک انصاف

Imran Khan - PTI

Imran Khan – PTI

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

انقلاب و تبدیلی کا راستہ روکا نہیں جا سکتا،یہ کسی کے کہنے سے نہیں آتی بلکہ ماضی میں انقلاب کا آتش فشاں مادہ مختلف معاشی ناہمواریوں، سیاسی و عوامی مفادات وترجیحات اور کمزور حکومتی ڈھانچے کی بنیادوں کے نیچے الاو کی شکل میں پکتا رہتا ہے اور اچانک زوردار دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑتا ہے،اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، طبقاتی تفریق میں وسیع خلا،معاشی ابتری،استحصالی بالائی حکمران طبقے کی لوٹ ومار،عوامی امنگوں اور تقاضوں کے بر عکس مخصوص خاندانوں کا اقتدار پر قبضہ،عوامی مفادات کے بر عکس مراعات یافتہ طبقہ کی فرمانروائی اور دیگر کئی پہلو ہیں جو انقلاب کا سبب بنتے ہیں،مگر معاشی ابتری وغربت اس کا نمایاں سبب ہوتا ہے۔اسکے بر عکس عوامی شعور اور معاشی وتجارتی سرگرمیاں جتنی زیادہ تیز تر ہوں وہاں جدید طبقہ قوت حاصل کر لیتا ہے اور روائیتی سیاسی ڈحانچے کو تبدیل کر دیتا ہے۔لازمی نہیں کہ عوام ہی اس تبدیلی میں شامل ہوں، ملک کے مقتدر ادارے بھی عوامی آواز کی حمایت میں شامل ہوجاتے ہیں، سیاسی وسماجی ارتقا کسی قانون کا پابند نہیں ہوتا وہ سب پر برابر اثر انداز ہوتا ہے۔

طبقوں کے مفادات الگ الگ ہوتے ہیں،مڈل کلاس اشرافیہ کو پسند نہیں کرتی اسی طرح عوامی طبقہ اسی وقت مزکورہ طبقات کی فرمانروائی کو قبول کرتا ہے،جب تک وہ منظم نہیں ہو جاتا۔سیاسی وسماجی ارتقائی عمل میں معاشرے کا ہر فرد اور ہر طبقہ شامل ہوتا ہے۔تبدیلی کے تمامتر اسبااب مادی وسماجی ہوتے ہیں ۔ایسے حالات میں تبدیلی کسی بہانے کی تلاش میں رہتی ہے،انقلاب ہمیشہ اندھے ہوتے ہیں،وہ سب کچھ خس وخشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں اور ایک نئے معاشی و سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھتے ہیں۔انقلاب قانون ،کلچر،سماجی اور معاشی بنیاد و اقدار اور روایات کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں۔حقیقی انقلاب وہی ہوتا ہے جس کی بنیاد معاشی بنیادوں پر استوار ہواور اجتماعی سماجی حرکت سے ہم آہنگ ہو اور اکثریتی عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ وہ کبھی حقیقی انقلاب وتبدیلی نہیں ہوتی جسکے ثمرات سے عوام مستفید نہ ہوں،مگر انقلاب کا سفر بتدریج اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتا ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ متوسط طبقے کا لایا ہوا انقلاب کامیاب رہا کیونک انہوں نے محروم طبقات کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔١٧٧٥ کا امریکن انقلاب،١٧٨٩ کا فرانسیسی انقلاب١٨٤٨ کا یورپین انقلاب٧١١٩ کاروسی انقلاب١٩٤٠ کا چینی انقلاب اور١٩٥٩ کا کیوبن انقلاب معروف معنوں میں قابل ذکر ہیں،جہاں فرانسیسی انقلاب نے روائیتی جاگیرداری نظام کا قلع و قمع کیا وہاں شخصی آزادی وجمہوریت کی بھی داغ بیل ڈالی۔یہ ایک مثالی سوشلسٹ انقلاب تھا،جسکی ارتعاش کے اثرات یورپ بھر میں مرتب ہوئے اور تبدیلی کا آغاز ہوا۔اسی طرح روسی اور چینی انقلاب نے بھی نہ صرف اپنے ملکوں میں معیاری تبدیلی لائی بلکہ ان کے اثرات دنیا بھر پر مرتب ہوئے،جزوی اور کلی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔آج کی جدید تہذیب ان انقلابات دہر کا نتیجہ ہے۔جو معاشرہ انقلابی فکرسے آگاہ نہیں ہوتا اور اسکو اپنے عمل کا حصہ نہیں بناتا،اپنے اندر ہی گل سڑ جاتا ہے،ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں مفاداتی اور استحصالی گروہ زیادہ طاقتور ہوتے ہیں،لیکن انقلاب کے ثمرات سے متمتع ہونے سے زیادہ انقلاب کے زخم ایک نسل کو ضرور سہنے پڑتے ہیں۔

عاشقی خون جگر چاہتی ہے،کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو۔کسی بھی قسم کے روائیتی ڈحانچے کو مسمار کرنے کا جذبہ قوموں کی انقلابیت اور خلاقانہ جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔ایک انقلابی ہزاروں سرکار کے مطیع و فرمانبرداروں پر بھاری اور قابل تکریم ہوتا ہے،جس سے قوم کے حقیقی مسائل کا مداوا یقینی ہوتا ہے۔بقول اقبال آیئن نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا ۔کٹھن یہی ہے منزل قوموں کی زندگی میں ۔آتا ہے سلطانی جمہور کا زمانہ ۔ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو مزکورہ متشدد اور خونیں انقلابات کے بعد سماجی ارتقا کا سفر تیز تر ہو گیا،جمہوری سوچ پروان چڑھتی گئی،انقلاب کا کام ااصلاحات سے لیا جانے لگا ۔علوم وفنون کی ترقی نے نئے مفاہیم کو جنم دیا۔کلیت پسندی اور کٹر پن کی جگہ افہام و تفہیم اور سمجھوتہ کی راہیں ہموار کی گئیں،کیونکہ عوامی شعور وجمہوریت مضبوط ہو چکے تھے،ٹریڈیونین اور مزدور یونین اپنے مطالبات منوا رہی تھیں،تعلقات پیداوار میں مطابقت اور توازن پیدا ہو چکاتھا۔ ٹیکس اور اصلاحات کے ذریعے سماجی تحفظ قائم ہو چکا تھا۔ یہ سب سیاسی مہا بیانیہ کے بر عکس تجزیہ و انصاف پر مبنی تھا،آئیڈیالوجی کے بر عکس محنت و مشق کو اہمیت دی گئی،اسکے برعکس انقلاب وقت کی ضرورت تھے انکے لئے ماحول سازگار تھا،زمانہ انقلاب کی ہولناکیوں اور تباہیوں سے بھی آگاہ ہوا۔انسانی شعور اور تجربات سے بھی آگاہ ہوا اور سیاسی وسماجی تشکیل کے لئے اس نے نئے راستے بھی تلاش کئے اور بہترین سماج کی تشکیل اور تعمیر کے لئے نئے سیاسی بیانیوں سے بھی کام لیا۔جہاںقوت کے کم استعمال سے بہتری لائی جا سکتی تھی وہاں اس نے افہام وتفییم اور سمجھوطے کا راستہ بھی تلاش کیا کیا ،یہ انسان کا سیاسی و سماجی ارتقا تھا،جس نے کلیت پسندی اور کٹر پن کی جگہ قطرے میں دجلہ اور لفط و معنی میں مفاہیم کے آباد جہاں دیکھے،سوشل ڈیمو کریسی انسانی سیاسی فکر کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے،کیمونسٹ اور سوشلسٹ انقلاب کی مرصع ومعتدل شکل سوشل ڈیمو کریسی کی شکل میں ظاہر ہوئی،جس کو زمانہء حال میں ایک بہترین اور کامیاب نمونے کے طور پر دیکھا جاتا ہے.یہ انقلاب کی دشمن نہیں مگر اس کے تسلسل کو حکمت سے جاری رکھنے کا سیاسی عمل ہے۔انقلاب کے بر عکس آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے بتدریج سوشلزم کے اہداف ،جمہوری و لبرل انداز سے حاصل کرنے کا طریق کار ہے،جس کا مقصد معاشی وسائل کی سماج میں منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے اور عدل اجتماعی کے ذریعے ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے،یہ سخت گیری کے بر عکس بتدریج تبدیلی کی خواہاں ہے۔

یہ تاریخی جبر کو قوت ارادی سے ختم کرتی ہے کیونکہ زمانہ حال کی عمارت ماضی کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور انسان ماضی کے جبر کے نیچے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔اس مجبوری اور جبر کو وہ جدو جہد اور قوت ارادی سے توڑنے کا فطری جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے،اس کے پاس تاریخی جبر سے لڑنے کا ہتھیار عقل وشعور اور نت نئے تجربات سے گذرنا ہے اور یہی قوت ارادی کا جذبہ ہے جو تاریخی جبر کو جدوجہد کے زریعے ختم کرتا ہے، بقول مارکس انسان کو حالات اپنی مرضی سے ملے ہوئے نہیں ہوتے۔ مستقبل کی حسین وادیوں میں قدم رکھنے اور حال کا مالک بننے کے لئے اسکو زمانے کے سمندر سے گوہر فردا نکالنا ہوتا ہے جو جدوجہد سے مشتق ہے۔گرچہانسان کے سماجی وجود کا تعین شعور کے بر عکس اس کا سماجی وجود ہی متعین کرتا ہے،لیکن شعور و ارادہ مسلسل تبدیلی کے خواہاں اور آمادہ بغاوت بھی رہتے ہیں،سماجی وجود جو تاریخی جبر سے قائم ہوا ہے مصمم قوت ارادی سے شکست وریخت سے دوچار ہو جاتا ہے،شعوری جدو جہد سیاسی معاشیات کی بھی رہین منت ہوتی ہے۔سازگار سیاسی نظام فرد کے ارادہ و شعور کے لئے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔سوشل ڈیموکریسی میں مکالمہ اور عمل برابر چلتے ہیں اور معتدل راستہ تلاش کیا جاتا ہے، شخصی آزادی کا تصور احساس زمہ داری کیساتھ نتھی ہو گیا ہے۔احتساب اور جوابدہی کا تصور معیار اور میرٹ کو قائم رکھتا ہے۔ یہ انقلاب کی ضرب سے جسم سے خون نہیں بہاتی مگر چیخیں آسمانوں تک ضرور بلند ہوتی ہیں۔

جذبہ محرکہ سے ذاتی نشو ونما وترقی کے باب کھلتے ہیں۔یہ خونین انقلاب کا کام اصلاحات سے لیتی ہے،مگر جہاں ضرب کاری لگانی پڑتی ہے وہاںلیت و لعل سے کام نہیں لیتی۔انقلاب کی چھڑی سے بھی استحصا لی قوتوں کو ہانکنے کا کام لے لیتی ہے۔مارکس نے آخر میں آئئین و قانون یعنی پارلیمنٹ کے ذریعے انقلابی تبدیلیوں کی حمائیت کی تھی۔اس نے طبقاتی جدو جہد کے بر عکس طبقاتی تفریق کا خاتمہ پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کو جائز قرار دیا تھا۔اس بنا پر مغربی ممالک نے تبدیلی کا راستہ آئین و قانون کی بالا دستی کو قرار دیا۔مگر پسماندہ سماج میں اصلاح احوال کے لئے ماورائے قانون اقدامات ترقی کا سفر تیز تر کر دیتے ہیں،جہاں عوامیت اور مفاد عامہ کا پہلو غالب ہو،کیونکہ سوشل ڈیمو کریسی معاشرے کی مقتدر طبقات اور اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلتی ہے مگر ان کومستحسن نظروں سے نہیں دیکھتی جب تک وہ آئین وقانوں اور ریگولیشن کے پابند نہ ہو جائیں،سوشل ڈیموکریسی کا ضاصہ ہے کہ وہاں قانون سب کے لئے ایک ہوتا ہے،جہاں عوامی مفاد کو طبقاتی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے،جس کا بہترین ماڈل سیکنڈ نوین ممالک ہیں،جنہوں نے ایک صدی کی مسلسل کوششوں سائنسی و صنعتی ترقی اور اداروں کی مینجمنٹ میں ایک مثال قائم کی۔تمام قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کر خود کفالت پیدا کی۔١٩٥٩ میں سویڈش ماہر تعلیم نے کہاِِِ٫٫سائئنس سماجی ترقی کی بہت متحرک قوت ہے۔۔۔

فلاحی ریاست سائنس کی مدد کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی،جان ڈی برنال نے کہا٫٫فطری سائنس اور تکنیکی علوم نے بہت سے مسائل حل کر دئیے ہیں،،،سب سے بڑی بات یہ تھی کہ سیاست وسائنس اکھٹی ہو گئی تھی،ماہرین نے تعمیر وطن میں اہم کردار ادا کیا۔کلچر وسیاست پر معاشی پالیسیاں سبقت لے گئیں۔عوام کا معیار زندگی بلند ہوتا گیا،طبقات سکڑنے شروع ہو گئے۔طبقاتی شعور اور طبقاتی جدوجہد نے ایک فلاحی ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا،ناروے میں ہمیشہ سے مارکسی تحریک مضبوط رہی،سویڈن میںبایاں بازو کمزور تھا،جس کی بناپر اصلاحات وترقی کا عمل ناروے میں تیزی سے جاری رہا،جو عصر حاضر میں دنیا کی ایک بہترین اور مثالی فلاحی اور پر امن ریاست ہے۔طبقاتی جدو جہد میں کیمونسٹوں اور سوشلسٹوں نے تمام راہیں ہموار کر دی تھیں،مگر ملک کے تمام طبقات سوشل ڈیمو کریٹس پارٹی کی حمائیت میں اکھٹے ہو گئے۔جنہوں نے طبقات کی تفریق کو ختم کرنے کا اصلاحات کے ذریعے بیڑا اٹھایا۔طبقات کو براہ راست ضرب کاری لگانے کی بجائے قانون سازی اور اصلاحات کے ذریعے قابل قبول بنایا۔روسی سائنسی مینجمنٹ کیساتھ عقلیت پسندی ،افادیت پسندی اور عملیت پسندی کے فلسفوں کو اپنے قومی اور سیاسی فیصلوں میں جگہ دی۔لیکن یہ سب کچھ طبقاتی جدو جہد اور طبقاتی شعور کا ہی نتیجہ تھا،قوت ارادی اور عقلی فیصلوں کی قوت نے آخر میں ایک ایسے سماج کی بنیاد ڈالی جہاں طبقات پس منظر میں چلے گئے اور غیر طبقاتی معاشرے کا احساس ابھرنے لگا،کامل غیر طبقاتی سماج کا تصور فطری اصولوں کیخلاف بھی ہے جو ایک خواب کی دنیا سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا،غیر طبقاتی سماج وہیں ہوتا ہے جہاں طبقاتی تفریق کا شدت سے احساس نہ ابھرے۔اور سوشل ڈیمو کریسی نے سرمایہ داری اور سوشلزم کی شادی ایک فلاحی ریاست میں کر دی جہاں دونوں ہنسی خوشی سے رہنے لگے۔

سوشل ڈیمو کریسی نے اپنے آپکو ایک غیر نظریاتی ریاست ،ازم سے پاک،مہابیانیہ سے آزاد بنانے کی بھر پور کوشش کی،جو ماضی کے تجربات کو عصری تقاضوں اور عوامی شعور سے ہم آہنگ کرتی ہے۔عملیت پسندی کو سیاسی بیانیہ میں مرکزی جگہ دیتی ہے، سیاسی دشمنوں سے لڑتی نہیں مگر تضادات کو بھی قبول نہیں کرتی ،رواداری ،عالمگیریت اور برداشت کو بھی قبول کرتی ہے جو اسکو نیو لبرل ازم کے قریب کر دیتا ہے ۔اداروں میں ریاستی مداخلت ،کنٹرول مارکیٹ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اسکو سوشلزم سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ہر شعبہ ہائے حیات میں سائنسی طرز فکر اور طرز عمل اختیار کرنے پر زور دیتی ہے۔روائتی انداز سیاست کو رد کرتی ہے۔ مذہبی سیاست کو حقائق و تجربات کے بر عکس جانتی ہے،مگرہمیشہ تجربے کو تجرید پر فوقیت دیتی ہے۔خیال پرستی اور روائیت پسندی کو زمانہ حال کے فیصلوں میں شامل نہیں کرتی،مگر ماضی کے آئنہ میں مستقبل کی راہیں تلاش کرتی ہے،جہاں سیاست عملیت پسندی اور افادیت پسندی کے سوا کچھ نہیں رہتی۔سیاسی انتشار کو ختم کرکے خموش انقلاب اور جہد مسلسل کی راہیں ہموار کرتی ہے۔نظریہ کا پرچار نہیں کرتی صرف عمل سے نظریہ کا اظہار ہوتا ہے۔

جدید مادیت وٹیکنالوجی سے سماجی ترقی کا آغاز کرتی ہے اور عوامی مسائل کا حل پیش کرتی ہے،جہاں سیاست سائنس کی چھاتیوں سے دودھ پیتی ہے۔انقلاب کے بر عکس سوشل ڈیمو کریسی نے یہ سفر وسیع ماضی کے تجربات سے گذر کر طے کیا ہے،جو مسلسل سیاسی تحریکوں اور سائنسی و علمی ترقی کا نتیجہ ہے۔فکری اعتبار سے یہ لندن کی فیبین فلاسفیکل سوسائٹی اور امریکن عملیت پسندانہ فلسفے سے زیادہ متاثر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جو سوشلزم کے انقلابی فلسفے کو اصلاحات کے ذریعے بھی قبول کرتی ہے،اسکے نزدک نظریہ و ازم کے مقابلے میں صداقت علمی اور حقائق کو زیادہ اہمیت حاصل ہے،مگر عقلیت پسندی اور ریاست کے تصور سے بھی آزاد نہیں،اس بناپرمکمل ازم سے یہ بھی پاک نہیں ہو سکی،مگر سوشلزم کی سخت گیری اور قدامت پسندی کی ماضی کے حقائق کو تجریدی شکل دینے کی کوشش میں بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی،دوسرے سیاسی نظاموں سے بہت کچھ مستعار لے کر اپنی ایک الگ انفرادیت قائم کرتی ہے،مگر اس کے علمی وسیاسی رشتے دوسرے سیاسی نظاموں سے بھی جڑے رہتے ہیں،یہ بلا عذر کہا جا سکتا ہے موجودہ سیاسی نظاموں میں یہ سب سے زیادہ مہذب و شائستہ اور ترقی یافتہ نارڈک سیاسی ماڈل ہے،جس کو علم وتجربات اور عقل سلیم سے تیار کیا گیا ہے۔مگر جہاں ایک ریاست کا تصور آتا ہے وہاں یہ بھی آئیڈیالوجی کے تصور سے آزاد نہیں ہو سکتی،مگر اس کا حسن یہ ہے کہ کٹر پن اور تجرید کو بھی قبول نہیں کرتی۔اگر اس کا کسی نظام فکر سے تضاد دیکھنا ہو تو روائتی سرمایہ داری اور سوشل ڈیمو کریسی کے مابین م نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں ابھی تک لبرل یا سوشل ڈیموکریسی کا آغا ز نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اتنا جلدی ہو سکتا ہے،کیونکہ وہاں ابھی تک عملیت پسندی اور افادیت پسندی کے بر عکس انتشاری اور مفاداتی طبقہ حکمران چلا آرہا ہے۔قوم خاندانوں،فرقوں اور علاقوں کی سیاست سے باہر نہیں نکل سکی۔شخصیات عوامی مسائل پر ترجیح رکھتی ہیں۔قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے صرف چند خاندانوں اور ایک مخصوص طبقے کو جنم دیا ہے۔طبقاتی شعور عوام میں پیدا نہیں ہوا ہے اور جس کی وجہ سے طبقاتی تفریق بڑھی ہے۔امرا اشرافیہ اور جاگیر دار طبقہ کو ابھی تک نجات دہندہ سمجھا جا رہا ہے۔لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے ہے،جس کو مسلسل روائتی سیاستدان فکری مغالطوں میں الجھا کر بیوقوف بنا رہے ہیں۔سماجی ارتقا تیزی سے جاری ہے مگر عوام کو اٹھ کر چلنے کی سکت نہیں ہے وہ مسلسل ماضی کے جبر کے نیچے جینے پر مجبور ہیں۔ماضی کے معاشی جبر سے نکلنے کے لئے موجودہ حکومت کو اپنا سب کچھ دائو پر لگانا ہوگا۔عملی اقدامات اور ترقی کے منافع بخش منصوبہ جات کے آغاز کے بغیر کوئی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا،کیونکہ ماضی کا معاشی جبر جس کا عملی اظہار حال میں ہوا ہے سے نمٹنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔

کلچرل تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے،حکمران طبقہ کو ایک مثالی وحقیقی جمہوری اور سادہ کلچر متعارف کرنے کی ضرورت ہے، ہر وزیر کو کار کردگی اور محنت سے ترقی کی ایک مثال قائم کرنی ہو گی ۔ اشرافیہ اقدار کی نفی کرتا ہو گی جو طبقاتی تفریق اور محرمیوں کا احساس اجاگر کرتا ہے۔ملک کو بیرونی دشمنوں کے بر عکس اندرونی سیاسی مفاداتی گروہوں سے زیادہ خطرہ ہے جو ملکی معیشت کی کئی عشروں سے جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں،احتساب کی چھڑی کا بے لاگ چلنا تبدیلی کے سفر کو آسان بنا دیتا ہے،اگر مجرم سزا کے مستحق ہیں تو عوام جزا بھی تو چاہتی ہے،جب تک عوام کو ریلیف نہیں ملے گا ، حکمرانوں پر اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔ لیکن عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ معاشی بحران موجودہ حکمرانوں کا پیدا کردہ نہیں مگر اس کا خاتمہ بھی ان کی زمہ داری ہے۔اگر موجودہ حکومت ایک بہترین سیاسی کلچر اور موثر نظام دینے میں کامیاب ہو گئی۔میرٹ اور انصاف کے عملی مظاہر عوامی شعو ر کا حصہ بن گئے،معاشی ترقی کے لئے تمام شعبہ ہائے حیات کو سائنسی بنیادوں پر استوار کر کے ترقی کے سفر کا آغاز ہو گیا ،تو سوشل ڈیمو کریسی کے خواب کو کوئی شرمندہء تعبیر ہونے سے روک نہیں سکے گا۔عمران خان اور اس کے مخلص کا رکنوں کی کوششیں رنگ لائیں گی ۔یہ لوگ نیت کے صاف اور ارادے کے پکے ہیں.مگر حکمت،تجربہ اور ٹھوس عملی اقدامات کے بغیر سب خواب ادھورے اور منصوبے نامکمل ہیں۔ وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے۔ زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا

Professor Mohammad Hussain Chohan

Professor Mohammad Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان