انقلابی گونج

votes

votes

تاریخِ انسانی میں انقلاب ووٹ کی پرچی سے نہیں بلکہ عوامی قوت سے ظہور پذیر ہوتا ہے جس کیلئے برسوں گلی کوچوں کی خا ک چھاننی پڑتی ہے اور عوام کو انقلاب کیلئے تیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑی ہی مشکل اور صبر آزما راہ ہوتی ہے کیونکہ ریاست انقلاب کے داعیوں کو باغی قرار دے کر موت کی وادی کا راستہ دکھاتی رہتی ہے ۔کتنے ہی لوگ ہیں جو انقلاب کی راہ کا ایندھن بنے اور انقلاب دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے سدھار گئے لیکن جس خواب کا بیج انھوں نے اپنی جان کے بیج سے بویا تھا وہ اپنا رنگ ضرور دکھا کر رہا۔انقلاب گمنام فدائیوں کا تحفہ ہوتا ہے۔

انقلاب میں ہر چیز الٹ پلٹ ہو جاتی ہے، اہلِ اقتدار زندانوں میں دھکیل دئے جاتے ہیں اوراہلِ زندان اقتدار کی مسند پر بٹھا دئے جاتے ہیں۔ اہلِ ہشم کے محلات، باغ اور مال و متاع کے وارث وہ انقلابی قرار پاتے ہیں جواپنی زندگیاں انقلاب کے نام لکھ دیتے ہیں۔یہ راہ بڑی کٹھن اور جان لیوا ہوتی ہے کیونکہ ریاست کی پوری طاقت انقلابیوں کو کچلنے کیلئے اپنا زور لگاتی رہتی ہے اور اپنے افعال میں بے رحم بن کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر تی رہتی ہے۔ایک طرف بے رحم ریاست جو اہلِ اقتدار گروہ کی دل و جان سے حفاظت کرتی ہے اور دوسری طرف عوامی خو اہشات اورآرزئوں کے حامل وہ سر پھرے انقلابی جو اقتدار کے حا مل گروہ کو اقتدار سے بے دخل کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں ۔ایک جنگ ہوتی ہے جو انقلابیوں اور اہلِ اقتدار کے درمیان برپا ہوتی ہے۔ایک طرف سچ کا وجدان ہوتا ہے اور دوسری طرف حر ص و ہوس اور لالچ ہوتا ہے جس میں عوام کو غلام بنانے اور ان کا استحصال کرنے کی خواہش موجزن ہوتی ہے ۔عوام کی اکثریت جب ریاست کے خلاف علمِ بغا ت بلند کر دیتی ہے تو پھر انقلاب کو روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔جدید دور کا فلاسفر کارل مارکس اپنی شعرہ آفاق کتاب (داس کیپیٹل )میں اس معرکے کو دو گروہوں کے درمیان ازلی جنگ کا نام دیتا ہے۔

اس کے بقول امیر اور غریب کے درمیان یہ جنگ روزِ ازل سے جاری ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ جنگ یونہی جاری و ساری رہیگی۔اس کی شکلیں اور انداز تو بدلتے رہیں گئے لیکن یہ جنگ انہی دو طبقات کے درمیان برپا رہیگی کیونکہ ان دونوں گروہوں کا وجود حقیقتِ ثا بتہ بھی ہے اور ایک دوسرے کی ضد بھی ہے ۔کبھی ایک طبقہ جیت جائیگا کبھی دوسرا طبقہ فتح مند ہو گا لیکن اس جنگ کا انجام کبھی نہیں ہو پائیگا کیونکہ یہ دونوں طبقات روزِ قیامت تک اس دھرتی پر موجود رہیں گئے اور اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں گئے۔

انقلاب چونکہ کشت و خون کا پیش خیمہ ہوتا ہے اواس میں مخالفین کو بزورِ قوت کچل دیا جاتا ہے اس لئے ریاست میں خانہ جنگی اور بد امنی کی کیفیت رہتی ہے۔ اقتدار پر قابض گروہ کو ہٹا نا اتنا آسان نہیں ہوتاکیونکہ ا ن کے پاس ریاست کی بے پناہ طاقت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیتے ہیں ۔لہذا دانشوروں نے اس قباحت سے بچنے کیلئے جمہوریت کا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار تفویض کیا گیا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اکثر اسلامی ریاستوں اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں ہے۔سوشلسٹ ممالک میں بھی جمہوریت کی کوئی روا ئت نہیں ہے۔تیسری دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک بھی جمہوی قدروں سے کوسوں دور ہیں۔ان کے ہاں شخصی انداز کا ایسا نظامِ حکومت قائم ہے جس میں عوامی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ وہاں یک جماعتی نظام رائج ہو تا ہے جس کی روح سے ایک خاندان، ایک گروہ یا ایک سوچ کی حکمرانی ہو تی ہے اور لوگوں کو ان کا غلام بن کر رہنے پر مجبور کر دیا جا تاہے۔جو کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے یا جمہوری قدروں کو رونا روتا ہے اس کی لاش پر اس کے عزیزو اقاب روتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ تماشہ ہم اپنی آنکھوں سے روز دیکھتے ہیں۔

Democracy

Democracy

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوریت ایک ایسا نظا مِ حکومت ہے کہ اگر اسے خلوصِ دل سے نافذ کیا جائے تو ملک کے ذہین و فطین افراد اس کی فیو ض و برکات سے ملکی سطح پر اہم ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو سکتے ہیں اور یو ں قومی یکجہتی کی علامت بن سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی مخصوص خا ندان کے نہیں بلکہ پورے ملک کے نمائندے ہوتے ہیں ۔جمہوریت میں ترقی کا میدان ہر ایک کے لئے کھلا ہوتا ہے اور اہلِ نظر اور اہلِ فکر اپنا مقام اپنی خداداد صلاحیتوں سے بنا سکتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ اس کی بہترین مثال ہیں جہاں پر سیاہ فام بارک حسین اوبامہ نے امریکی صدارت پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ سچ ہے کہ جمہوری قدروں نے خونی انقلاب کی راہیں رو ک کر جمہوری انقلاب کی راہیں کشادہ کی ہیں لہذا اب انقلاب کا مفہوم ووٹ کی پرچی سے تبدیلی کو برپا کرنا سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ ووٹ سے چہرے تو ضرور بدل جاتے ہیں لیکن نظام نہیں بدلتا جس کی وجہ سے عوام کی حالتِ زار میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔اس کی واضح مثا ل پاکستان اور بھارت ہیں جن میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور چند خاندانوں پر اللہ کی اتنی رحمت ہوتی جا ر ہی ہے کہ ان سے دولت سنبھالی نہیں جا رہی ۔ان کے ہاں دولت کی اتنی ریل پیل ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا رہی ہیںاور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر سر انجام پا رہا ہے۔ پاکستان میں تو جمہوریت کے معنی خو اص کی حکومت ہے۔قدیم یونان میں اسے اشرافیہ کی حکو مت کہا جاتا تھا اور اشرافیہ کی اسی حکومت کے خلاف سقراط نے تاریخی جدو جہد کی تھی۔وہ عوام کو حقِ حکمرانی میں شریک کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور اشرافیہ نے اپنا استحصالی سفر پورے طمطراق کے ساتھ جاری رکھا جس کے خلاف بعدمیں اطلاطون اور ارسطو کو سقراط کی فکر کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری نبھانی پڑی۔پاکستان میں اب طے ہے کہ کارزارِ سیاست صرف امرا کیلئے مخصوص ہوگا کیونکہ انتخا بات میں جس قدر اخرا جات آتے ہیں انھیں پورا کرنا کسی غریب آدمی کی بساط میں نہیں ہے۔

جدید دور میں انقلابِ روس،انقلابِ چین اور انقلابِ ایران اس کی واضح مثا لیں ہیں۔ان میں انقلابِ روس اور انقلابِ چین اپنی جہت میں ایک ہی فلسے اور نعرے کی باز گشت تھے صرف اس فرق کے ساتھ کہ ایک میں کسانوں کو انقلاب کا ہراول دستہ بنایا گیا تھا جبکہ دوسرے میں مز وروں کو انقلاب کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔دونوں سوشلسٹ انقلاب تھے اور دونوں کی منشاء ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جس میں امرا کی بجائے محروم طبقات کو اقتدار کی راہداریوں میں ایک طاقتور عنصر کی حیثیت حاصل ہو جائے۔کمال یہ ہے کہ روسی اور چینی قیا دتوں کا تعلق مڈل کلاس طبقے سے تھا لہذا عوام نے انکی جدو جہد کا ساتھ دیا اور یوں یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔روس میں لینن نے انتہائی طاقت ور حکمران زارِ روس کا تختہ الٹ دیا جب کی چین میں مائوزے تنگ کے ہاتھوںچیانگ کائی شیک جیسا آمر اپنے انجام کو پہنچا اور ملک سے فرار ہو کر تائیوان میں پناہ گزین ہو گیا۔ایران کا انقلاب متذکرہ بالا دونوں انقلابات سے کافی مختلف تھا۔ اس میں مذہب کو بنیاد بنایا گیا تھا اور لادینی او ر برہنگی کے خلاف جہاد قرار دے کر رضا شاہ پہلوی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا گیا تھا۔اسلامی قدروں کا احیا اس انقلاب کانقطہ ماسکہ تھا جس پر امام خمینی نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ایک طویل جدو جہد کی اور ١٩٧٩ کا سورج ان کی فتح کی نوید بن کر طلوع ہوا۔

ایرانی انقلاب کی قیادت بھی متوسط طبقے کے ہاتھوں میں تھی جن کا تعلق عام طبقے سے تھا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کو عوامی حمات حاصل تھی اور لوگ اس انقلاب کی خا طر اپنی جا نوں کا نذرانہ پیش کرنا اپنادینی فریضہ سمجھتے تھے۔اسلامی انقلاب دن بدن توانا ہوا چلا گیا اور شاہِ ایران ا پنے بے شمار جبر کے باوجود کمزور ہوتا چلا گیا۔وہ ریاستی طاقت سے اپنے اقتدار کو بچا نے کے جتن کر رہا تھااور اس زعم میں تھا کہ ریا ستی جبر اس کے اقتدار کو بچا نے میں کامیاب ہو جائیگا لیکن اس کی یہ سوچ عوامی جذبات کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور اسے ناکام و نامراد ایران سے ہمیشہ کیلئے جلا وطن ہو جاناپڑا۔ آج کل پاکستان کے گلی کوچے بھی انقلاب کی آوازوں سے گونج رہے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری اس انقلاب کے داعی بنے ہوئے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان کی انقلابی فکر کامیابی سے ہمکنار ہو جائے اور عوام سکھ کا سانس لیں؟

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)