روزہ، ایک طبی و روحانی علاج

Quran

Quran

قرآن حکیم نے روزے کا مقصد تقویٰ بیان کیا ہے روزے کے دینی مقاصد اپنی جگہ اہم ہیں مگر روزے کا دوسرا پہلو جسمانی اور طبی بھی ہے سحری اور افطاری کے درمیان کھانے پینے کا وقفہ انسانی جسم کو فضلات سے پاک اور خون کو صاف کرتا ہے۔ روزہ دار میں مرض کے مقابلے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔اگر کھانے پینے میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے تو روزے سے انسانی جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے، بھائی چارے کا مہینہ ہے، ہمدردی کا مہینہ ہے، صبر میں انسان روحانیت کی منازل طے کرتا ہے حدیث شریف ہے کہ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ملتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اوردوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔ روزہ رکھنے سے انسان کی روح قوی ہوتی ہے، تراویح پڑھنے، سخاوت کرنے، کم بولنے، نوافل ادا کرنے اور قرآن پڑھنے سے روح کو غذا ملتی ہے۔افطاری اور سحری کے متعلق حکم ہے کہ جو بھی روزہ رکھنا چاہے وہ کسی نہ کسی حلال شے سے سحری کرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے اور جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے کیونکہ یہ برکت ہے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے افطاری کرے کیونکہ پانی بھی بندے کو پاک کرنے والا ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کے گھر افطاری کی اور پھر فرمایا تمہارے ہاں روزہ داروں نے روزہ افطار کیا نیک لوگوں نے کھانا کھایا اور فرشتوں نے تم پر رحمت بھیجی۔ سحری اور افطاری میں کھجور، دودھ اور پانی کا استعمال کرنا ایک تو سحری اور افطاری کے عمل میں مدد کرتا ہے اور نیت کے مطابق سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل بھی ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اللہ ہمیں رمضان میں شیطانیت سے ٹکرانے اور صالح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ رمضان میں ہمیں نام نہاد بیمار بن کر ماہ برکت کا استقبال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس مہینے میں ہمیں اپنی روح اور جسم کی تسکین کیلئے اس کا ایمانی جذبے سے استقبال کرنا چاہیے کیونکہ روزہ رکھنے سے نہ جسم کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی جسم میں کام کرنے کی طاقت کم ہوتی ہے اس کی مثال غزوہ بدر ہے جب 17 رمضان کو مکہ کے کفار سے جنگ کرکے مسلمانوں نے یہ اعلان کردیا کہ ہم روزہ رکھنے سے کمزور نہیں ہوئے بلکہ ایمانی لحاظ سے مزید مضبوط ہوگئے۔ مسلمانوں نے ماہ رمضان میں کئی فتوحات حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ روزہ جسمانی اور روحانی لحاظ سے انتہائی فائدہ مند ہے۔روزہ ایک حیرت انگیز طبی علاج ہے جو نہ صرف انسان کے مدافعتی نظام کو نئی توانائی فراہم کر سکتا ہے بلکہ پورے مدافعتی نظام کو دوبارہ سے تخلیق کر سکتا ہے۔امریکی سائنسدانوں نے اس مطالعے کو تحقیق کی دنیا میں ایک قابل ذکر پیش رفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف تین دن تک لگاتار روزے کی حالت میں رہنے سے جسم کا مدافعتی نظام پورا کا پورا نیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ روزہ سے جسم کو نئے سفید خون کے خلیات بنانے کی تحریک ملتی ہے۔سائنس دانوں کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی ازسرنو تخلیق کا ایک بٹن ہے جس کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

Ramadan

Ramadan

یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی دریافت کینسر کے مریضوں اور غیر موثر مدافعتی نظام میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر معمر افراد جن کا مدافعتی نظام زیادہ عمر کی وجہ سے غیر موثر ہو جاتا ہے اور ان میں معمولی
بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ہے، یہ مشق ان کے لیے بے حد مفید ہو سکتی ہے۔ سرطان میں مبتلا افراد یا معمر ہونے کی وجہ سے غیر موثر مدافعتی نظام کو روزہ ایک نئے مدافعتی نظام میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جب آپ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ نظام توانائی بچانے کی کوشش کرتا ہے اور روزے دارکا بھوکا جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام کے خلیات کا بھی استعمال کرتا ہے جس سے سفید خلیات کا ایک بڑا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے اے کی کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے ہارمون سے ہے۔جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو اوکے کا سگنل بھجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے۔محققین نے ایک تجربے کے دوران لوگوں سے چھ ماہ کے دوران دو سے چار بار فاسٹنگ (روزے) کے لیے کہا۔پروفیسر لونگو کے مطابق ہم نے انسانوں اور جانوروں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں؟بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو متحرک بناتی ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔

اگرچہ کمیو تھراپی کا عمل زندگی بچانے کے کام آتا ہے لیکن 72 گھنٹوں کا روزہ کمیو تھراپی کے زہریلے اثرات کے خلاف کینسر کے مریضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طبی معالج کے زیر نگرانی اس نوعیت کی غذائی پابندیاں کی جانی چاہئیں۔ذیابیطس کے مریضوں کو رمضان المبارک میں روزہ رکھنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے ضرور رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ذیابیطس کے لیول میں مسلسل اتار چڑھا کے باعث مستقل پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے، ڈی ہائیڈریشن یا خون میں ایسڈز کی زیادتی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔اگرچہ تمام مریض ان خطرات کا شکار نہیں ہوتے۔ اس سال تقریبا چالیس سے پچاس ملین مسلمان پوری دنیا میں روزہ رکھیں گے اور روزہ کی حالت میں خوراک اور جسم میں خون کے لیول کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ڈ ذیابیطس کے مریضوں میں اس قسم کے مسائل کی وجہ سے صحت پر مستقل منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہذا ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ کی حالت میں انسولین کی سطح کو متوازن رکھنا چاہیے۔

معمولی بیماریوں جیسے نزلہ یا بخار کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تاہم اگر کوئی فرد کسی شدید بیماری کے باعث روزہ رکھنے سے قاصر ہو تووہ فدیہ کے طور پر ہر روزے کے بدلے ایک ضرورت مند شخص کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔ ذیابیطس کے مریض سحر اور افطار کے بعد چہل قدمی سے گریز کریں تاہم باجماعت نماز تراویح کی ادائیگی واک کا بہترین نعم البدل ہے، سگریٹ نوشی کی عادت سے چھٹکارا پانے کے لئے رمضان کا مہینہ بہترین موقع ہے، ذیابیطس کے مریضوں کو زیادہ رش والی جگہ نماز پڑھنے یا دیگر عبادات کی ادائیگی سے گریز کرنا چاہئے اور اپنے پاؤں کی حفاظت کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472