روانڈا میں نسل کشی کا ذمے دار فرانس بھی، صدر ماکروں کا اعتراف

Emmanuel Macron

Emmanuel Macron

فرانس (اصل میڈیا ڈیسک) فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ فرانس روانڈا میں آٹھ لاکھ انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی نسل کشی کا ’شریک مجرم نہیں‘ تھا مگر اس نے روانڈا میں اس قتل عام کی مرتکب حکومت کی طرف داری کی تھی۔

فرانسیسی صدر ماکروں روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں نسل کشی کی جیسوزی یادگار کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے
فرانسیسی صدر ماکروں روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں نسل کشی کی جیسوزی یادگار کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے

صدر ایمانوئل ماکروں جمعرات چھبیس مئی کی صبح روانڈا کے دارالحکومت کیگالی پہنچے تھے اور ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرنا تھا۔ افریقی ملک روانڈا اور فرانس کے باہمی تعلقات 1994ء کی نسل کشی کے بعد انتہائی خراب ہو گئے تھے۔ صدر ماکروں گزشتہ ایک عشرے کے دوران اس افریقی ملک کا دورہ کرنے والے پہلے فرانسیسی رہنما ہیں۔

روانڈا کی طرف سے فرانس پر کئی بار یہ الزام لگایا جا چکا ہے کہ وہ اس ملک میں نوے کی دہائی کے وسط میں ہونے والی اس نسل کشی کا شریک ذمے دار ہے، جس میں تقریباﹰ آٹھ لاکھ انسان مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت اس ملک کے ٹوٹسی نسل کے باشندوں اور ہوٹو نسل کے اعتدال پسند شہریوں کی تھی۔

اس بارے میں فرانس کے ایک تفتیشی کمیشن نے مارچ میں اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی حکام پر اس امر کی ‘انتہائی غالب اور سنجیدہ نوعیت کی ذمے داری‘ عائد ہوتی ہے کہ وہ روانڈا میں اس المناک قتل عام کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق فرانسیسی حکام اپنے نوآبادیاتی رویے کی وجہ سے جیسے نابینا ہو گئے تھے۔ تاہم رپورٹ میں فرانس کو اس نسل کشی کا براہ راست ذمے دار یا شریک مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔

روانڈا کے موجودہ صدر پال کاگامے اس نسل کشی کے سلسلے میں کئی بار فرانس کو ذمے دار قرار دے چکے ہیں۔ مارچ میں جاری کردہ فرانسیسی تحقیقاتی رپورٹ کے بارے میں صدر کاگامے کا کہنا ہے کہ یہ دستاویز روانڈا کے عوام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

ساتھ ہی صدر پال کاگامے نے کہا کہ روانڈا کے عوام اس نسل کشی میں فرانس کے کردار کو ”بھولیں گے نہیں لیکن معاف کر سکتے ہیں۔‘‘

1994ء میں روانڈا میں جاری خانہ جنگی کے دوران اس وقت کے صدر جووینال ہابیاری مانا کو لے کر جانے والے ہوائی جہاز کو مار گرایا گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں وہ قتل عام شروع ہو گیا تھا، جس دوران صرف تقریباﹰ 100 دنوں میں آٹھ لاکھ انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس نسل کشی کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ مارچ میں جاری کردہ فرانسیسی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا، ”فرانسیسی حکام نے روانڈا کی حکومت کو ہتھیار فراہم کیے، اس کی مشاورت کی، تربیت فراہم کی، حکومتی فورسز کو مسلح کیا اور حکومت کی حفاظت بھی کی تھی۔‘‘ تاہم فرانس اب تک اس نسل کشی میں اپنے کسی کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔

جمعرات ستائیس مئی کے روز روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں صدر ماکروں نے نسل کشی کی جیسوزی یادگار کا دورہ کیا، جہاں اس قتل عام کے دوران مارے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زائد ٹوٹسی باشندوں کی لاشیں دفن کی گئی تھیں۔

اس یادگار کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں صدر ماکروں نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وسطی افریقی ملک میں 1994ء کی نسل کشی کی ”بہت بھاری ذمے داری‘‘ فرانس پر عائد ہوتی ہے۔

صدر ماکروں نے اس بات کا تو تفصیل سے ذکر کیا کہ کس طرح فرانس آٹھ لاکھ انسانوں کی جانیں بچانے میں ناکام رہا تھا۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں فرانس کے کردار پر باقاعدہ معافی نا مانگی۔

صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ فرانس اس نسل کشی کا ‘شریک مجرم نہیں‘ تھا مگر اس نے روانڈا میں اس قتل عام کی مرتکب حکومت کی طرف داری کی تھی۔ اسی لیے ان حالات کی ‘بہت بڑی ذمے داری‘ فرانس پر عائد ہوتی ہے، جن میں روانڈا اس نسل کشی کا شکار ہوا تھا۔