سعودی عرب کا دفاع ہمارا اعزاز ہو گا

Yemen Rebels

Yemen Rebels

تحریر : علی عمران شاہین
پاکستانی پارلیمنٹ نے یمن میں جنگ کے حوالے سے اپنے مشترکہ اجلاس میں بالآخر وہی فیصلہ سنایا جس کی توقع تھی۔پاکستان کے غیر جانبدا رہنے کے اعلان پر سب سے پہلے متحدہ عرب امارات نے حسب توقع دھمکی آمیز لہجہ اپنایا تو پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی اسے” افسوس ناک اور لمحہ فکریہ” قرار دیا حیرانی اس بات پر ہے کہ پاکستانی حکام آخر یہ کیوں بیان نہیں کرتے کہ امارات نے آخر یہ دھمکی کیوں دی؟اگر خلیجی دنیا نے ایسی دھمکی پر عمل شروع کر دیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ جبکہ اس وقت پاکستانی معیشت ،روزگار اور کاروبار کا لگ بھگ سارا تعلق ہی ان خلیجی ممالک سے ہے۔البتہ اس دوران میںپاکستان اور ترکی کے وزرائے اعظم نے مشترکہ طور پر اس بات کا فیصلہ سنایاکہ دونوں ممالک سعودی عرب کا مل کر دفاع کریں گے۔

اس کے ساتھ اب مسلم دنیا کا ایک اور ترقی یافتہ ترین ملک ملائشیا بھی میدان میں آ گیا ہے سرزمین حرمین کے خلاف سازشیں ایک عرصہ سے چل رہی ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں کو یہ بات ہرگز قبول نہیں کہ مسلمانوں کے دینی و روحانی مرکز امن و سلامتی کا گہوارہ ہوں بلکہ وہ تو دنیا کے کسی ملک میں بھی مسلمانوں اور اسلام کو پھلتا پھولتا اور امن و سکون سے رہتا نہیں دیکھ سکتے۔ دنیا بھر کے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ مسلمانوں پر کسی بھی ملک میں کسی بھی طرف سے کوئی بھی بدترین قہر ٹوٹ پڑے، دنیا کی کسی طاقت، ادارے یا انسانی حقوق کی تنظیم کو کوئی معمولی سی جنبش نہیں ہوتی۔

دنیا کے تقریباً ہر براعظم میں صرف مسلمان ہی وہ لوگ ہیں جن کو ہر طرح سے ستایا اور تڑپایا ہی نہیں بلکہ برے سے برے طریقے کے ساتھ قتل کیا جا رہا ،ان کی اجتماعی نسل کشی ہو رہی ہے۔مساجد کو مسمار کر کے مٹایا جا رہا ہے، قرآن جلایا جا رہا ہے۔نبی کریم محمد کی توہین کا سلسلہ دراز تر ہو رہا ہے لیکن لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ میں 15لاکھ مسلمان مار مار کر ملک سے ہی نکال دیئے گئے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق چند ہفتوں میںساڑھے چار سو سے زائد مساجد کو مسمار کر دیا گیا، لیکن کہیں ذکر نہیں ہوا۔

Muslim in South Africa

Muslim in South Africa

اب اس افریقہ کے ملک یوگنڈا میں مسلمانوں کی مساجد اور مدارس کو بیک جنبش قلم سرے سے ہی بند کر دیا گیا کہ یہ سب دہشت گردی کے اڈے ہیں لیکن کسی کو کوئی پروا ہی نہیں۔صاف نظر یہی آتا ہے کہ ساری دنیا نے مل کر یہ طے کر لیا ہے کہ مسلمانوں اور ان کے کسی شعائر کو دنیا پر رہنے نہیں دیا جائے گا ۔اگر اسلام دشمن قوتیں ہمارے پیارے نبی محمد کریم کی شخصیت مبارکہ کی توہین کو آزادی اظہار اور قرآن جلانے کو اپنا حق آزادی سمجھتی ہیں تو ان سے خیر کی توقع رکھنا سب سے بڑی حماقت ہے۔ انہی طاقتوں نے یہ سب طے کر کے دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل شروع کر دیا ہے اور کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کے ہر ملک اور ہرخطے میں آگ لگ جائے۔ کہیں کوئی مسلمان سکون سے نہ رہ سکے بلکہ اس کا وجود ہی دنیا سے مٹ جائے۔

دنیا بھر میں جاری اس متفقہ اس اسلام کش پالیسی کے تحت اب ان طاقتوں کاسب سے بڑانشانہ حرمین شریفین کی سرزمین ہے۔ یہاں تک تو یہ معاملہ خوش آئند ہے کہ مسلمان اس حوالے سے جاگ رہے ہیں، عام مسلمان بھی حرمین شریفین کی سرزمین کی پاسبانی میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں تو حکومتیں بھی بہت حد تک بیدار ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہمارے کچھ عاقبت نااندیش لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ ”اگر حرمین شریفین کوخطرہ ہوا”، ”اگر ایسے ہو ،اگر ویسے ہوا”تو ہم سب کود پڑیں گے، ہم سردھڑ کی بازی لگا دیں گے، ہم پیچھے نہیں رہیں گے، وغیرہ وغیرہ…

ان لوگوں سے ہمارا سوال ہے کہ کیا تمہیں اپنے پیارے نبی محمد کریمۖ کی شان میں گستاخی کا کھلا ارتکاب کرتے ہوئے بننے والے خاکے، جلتے قرآن، تباہ حال مساجد، کٹتے مرتے مسلمان، ان کی بستیاں اور ملک نظر نہیں آتے؟مسلمانو ں کا قبلہ اول کب سے پنجہ یہود میں جکڑا ہوا ہے۔کعبة اللہ کی بیٹی بابری مسجد تمھاری آنکھوں کے سامنے کیا شہید نہیں ہوئی؟ ایک بابری مسجد نہیں اس کے بعد بھارت اور دنیا بھر میں بلا شک و شبہ ہزاروں مساجد کے ساتھ یہی سلوک ہوا اور ہو رہا ہے۔ اس سب کو روکنے کیلئے آخر تم سب نے کیا کر لیا ہے؟ اب اسلام دشمنوں نے اپنے سب سے بڑے اورخطرناک حربے کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کر کے جب حرمین شریفین کی جانب قدم بڑھانے شروع کر دیئے ہیں تو پھر ان حالات میں دن، مہینے اور تاریخیں دینے کا یہ سلسلہ آخر کب ختم ہو گا؟ایسے لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ خدا را ہمیں” اگر مگر ”میں نہ الجھائیں۔انہی لوگوں کی وجہ سے ہم بدترین غلامی اور ناکامی کے بدترین اندھیروںمیں ڈوبے ہوئے ہیں۔

Khana Kaba

Khana Kaba

اس نازک ترین وقت میں اگر ہم فوری طور پر حرمین شریفین کی پاسبانی کے لئے متحد و منظم ہو کر کھڑے نہ ہوئے تو اللہ نہ کرے ،اللہ نہ کرے کہ یہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے۔ ہمارے حالات جتنے بھی برے ہوں… اگر ہم حرمین شریفین کی حفاظت کا عزم لے کر سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے تو اللہ کی مدد بھی ہمارے شامل حال ہو گی اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم نے جب بھی سعودی عرب میں حرمین شریفین کے دفاع کیلئے اپنی خدمات پیش کیں، فوج بھیجی، اللہ نے ہمارے ملک کی حفاظت اور مدد پہلے سے کہیں زیادہ کی۔ہمیں سب سے پہلے مسلمان ہیں جن کا یہ ایمان ہے کہ ان کے لئے اصل مدد تو آسمانوں سے ہی آتی ہے، اس میں ہمارا اپنا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ سعودی عرب جیسے عظیم ترین دوست ملک کی اگر ہم آج مدد نہیں کر سکتے تو ہمیں بھی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔

اگر سعودی عرب اپنا سب کچھ ہمارے اوپر برس ہا برس سے نچھاور کر سکتا ہے تو ہم اس کیلئے اپنے معمولی کندھے کیوں پیش نہیں کر سکتے؟ دوست کہلانے والے کیا دوستوں کو مشکل کے وقت اپنی مجبوری دکھا کر بھاگ جایا کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے پیارے نبی کریمۖ کی حدیث مبارکہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی (خود) مددمیں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔” اگر ہمیں اپنے رب کی مدد، نصرت و تائید حاصل ہو جائے تو ہمیں کسی اور کے مدد و تعاون اور اپنے نام نہاد دانشوروں کے فلسفے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کو اس کی مشکلات سے دوچار رکھ کر حرمین شریفین کے دفاع اور سعودی عرب جیسے اول تا آخر دوست کی مدد سے پیچھے ہٹنے کے مشورے دینے والوں نے آج تک آخر اس ملک کیلئے کیا کیا ہے کہ ان کی باتوں کو اہمیت دی جائے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہمیں اگر سرزمین حرمین کے دفاع کا موقع دے رہا ہے تو یہ ہمارے لئے سعادت ہے۔

وہ صحابہ کرام جنہوں نے غزوئہ خندق کے ذریعے سے مدینہ طیبہ کا دفاع کیا تھا، انہیں اسلام کی تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے کہ اللہ نے ان سے کام لیا اور وہ عظیم کارنامہ سرانجام دے گئے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو اسی یمن، جہاں سے اب حرمین شریفین کے خلاف فتنہ اٹھا ہے، سے آنے والے ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کو ابابیلوں کے پنجوں میں پکڑے معمولی کنکروں سے تباہ و برباد کر کے اپنے گھر کو بچا لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنے گھرکو تو بہرحال بچا ہی لینا ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس عظیم سعادت سے محروم رہ کر دنیا و آخرت دونوں کو برباد کر بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرزمین حرمین شریفین کی پاسبانی کیلئے چن کر ہمارے اوپر احسان عظیم کیا ہے جس کا اب ہم نے حق ادا کرنا ہے، دوست کی دوستی کا قرض ادا کرنا ہے، احسانات کا بدلہ چکانا ہے، سعودی عرب میں مقیم 25لاکھ اور کل خلیج میں موجود 40لاکھ ہم وطنوں کا بھی دفاع کرنا ہے اور اس کے لئے دوست کے کام آنا اپنے کام آنا ہی ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین