دھرنے میں نماز عید

Eid Prayers

Eid Prayers

تحریر۔روہیل اکبر

اس بار نماز عید الضحی اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کے شرکاء کے ہمراہ ادا کی ڈی چوک ایسی جگہ ہے جہاں دھرنے سے قبل انسان پیدل گذر نہیں سکتا تھااور سیکیورٹی کے نام پر وہاںبیٹھے ہوئے پولیس اہلکار ہر گذرنے والے کو ہتک آمیز رویہ سے واپس بھجوا دیتے تھے مگر اب وہاں پورا شہر آباد ہے کہاں گئے وہ بڑی بڑی اور موٹی موٹی گردنوں والے فرعون صفت غلام جو یہاں سے ہر گذرنے والے سائل سے یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ بھائی کہاں سے آئے ہو کس کے پاس جانا ہے اور کیا تکلیف ہے

جو اتنی دور سے سخت گرمی میں پیدل چل کر آرہے ہو مگر جس طرح حکمرانوں میں غرورآجاتا ہے بلکل اسی طرح ان حکمرانوں کے نیچے کام کرنے والے ہر ملازم میں بھی بادشاہت آجاتی ہے جس طرح ہمارے بادشاہ سلامت کسی ملازم کو خواہ وہ ان کا پنا رکن اسمبلی ہی کیوں نہ ہو کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ غلام سمجھتے ہیں اسی طرح ہمارے یہ سرکاری افسران اور ملازمین بھی عوام کو اپنی رعایا سمجھتے ہیں جہاں دل کیا جیسے چاہا دبا لیاایسی ہی پالیسیوں کی بدولت پاکستان میںہر انسان کے لیے علیحدہ علیحدہ قانون بن گیا جو بظاہر کسی لکھائی پڑھائی کے بغیر ہے مگر اس قانون کا اطلاق ہر جگہ نظر آئے گا بڑی گاڑی والے کے لیے الگ قانون ہے بڑے ڈاکو اور لٹیرے کے لیے الگ قانون ہے

ایک عام شہری موٹر سائیکل سوار اور پیدل چلنے والے کے لیے الگ قانون ہے ملک میں قانون اور حکمرانی کی یہ بندر بانٹ اس لیے ہے کہ ایک غربت کی ننگی دہلیز پر پیدا ہونے والا بچہ ان سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے برابر بیٹھ نہ سکے بلکہ غلاموں کی طرح زندہ رہے زندگی کی ہر ضرورت پوری کرنے کیلیے ان کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہے اور جب مر جائے تو اسکے گھر والے خیرات میں کفن بھی طلب کریںعید کی رات میں نے ایک عجیب تماشا دیکھا ایک طرف بڑے بڑے چور ایک دوسروں کو قربانی کے لیے بڑے بڑے جانور تحفہ میں دے رہے تھے

تو دوسری طرف غریب اور مجبور انسان رات کی روٹی پوری کرنے کے لیے مزدوری تلاش کررہا تھا میں نے جاتے جاتے اچانک شور کی آواز سنی تو دیکھا کہ ایک باریش انسان ایک لڑکے کو بری طرح پیٹ رہا تھا اس لڑکے کی عمر تقریبا 15یا 16سال کے قریب ہوگی جبکہ ساتھ ہی پولیس والے خوش گپیوں میں مصروف تھے جب میں نے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ لڑکا دوکان کے باہر پڑی ہوئی بوتلیں اٹھا کر بھاگ رہا تھا کہ دوکاندار کی نظر پڑ گئی جس نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور پھر اسکی دھلائی شروع کردی پوچھنے پر لڑکے نے بتایاکہ عید کی رات ہے اور گھر میں چھوٹے بہن بھائی بوتل مانگ رہے تھے جبکہ گھر میں تو ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی پیسے نہیں تھے اپنے ننھے بہن بھائیوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نے دوکان سے بوتلیں اٹھائی جسکے بعد دوکاندار سمیت چلتے ہوئے راہ گیروں نے بھی اس لڑے پر اپنے ہاتھ سیدھے کیے ایک طرف تو غربت کے مارے افراد زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف لوٹ مار کرنے والے اپنے حصے بانٹ رہے ہیں

Parliament

Parliament

عجیب تماشا لگا ہوا ہے حق دار سے اسکاحق چھین کرچوروں اور ڈاکوئوں میں بانٹا جارہا ہے اور عوام کے حقوق کے نگہبان پارلیمنٹ میں آکر اپنے اپنے حقوق کے محافظ بن جاتے ہیں آج پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے ہوئے سادہ لوح عوام جس مشکل اور تکلیف میں دھرنہ دیے ہوئے ہیں وہ قابل رحم بھی اور قابل ستائش بھی کیونکہ میں نے عید کے دن ان دھرنے والوں کو صبح سے شام تک بھوک میں مبتلا دیکھا عیدقربان کے باجودان میں سے اکثر افراد نے رات کے وقت سوکھی روٹی کھا کر گذارا کیا جبکہ دھرنے کے لیڈر اپنے اپنے ٹھکانوں پر مزے اڑاتے رہے ایک ہی دھرنہ ہے

مگر اس دھرنے میں بھی قربانی عوام کے حصہ میں ہی آرہی ہے جبکہ انکو دھرنے میں لانے والے ہر چیز بڑے مزے سے کھا پی کر اس دھرنے کو بھی انجوائے کررہے ہیں قربانیاں دینا عوام کا کام ہے جو وہ قیام پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان تک دیتے رہیں گے جبکہ عیش وعشرت سے زندگی گذارنا اب انکا حق بن چکا ہے جو پاکستان کو لوٹ لوٹ کر مقروض بنا چکے ہیں جنہوں نے عوام کو بیوقوف بنا کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اپنی جائیدادیں بیرون ملک بنا لی ہے پاکستان پر حکمرانی کی اور اب اپنی اپنی اولادوں کوغلام پاکستانیوں پر حکمرانی کے لیے تیار کررہے ہیں

کیونکہ ہمارے سیاسی نظام کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ الیکشن میں وہی کامیابی حاصل کرسکے گا جس نے دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹی ہو الیکشن میں کروڑوں روپے پارٹی کے فنڈ میں جمع کروا کر ٹکٹ لے سکے اور پھر اربوں روپے کے اخراجات سے اپنی الیکشن مہم چلائے ووٹ خریدے عوام کو بیوقوف بنائے اور پھر جیت کر سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرے پھر اپنی نسلوں کا مستقبل سنوارے عوام کو مزید پستی میں دھکیلے تاکہ آنے والے الیکشن میں وہ پھر ان کو بیوقوف بنا سکے اور ملک میں لوٹ مار کا سلسلہ یونہی چلتا رہے میں دھرنے میں شریک اپنے بھائیوں، بزرگوں اور بہنوں کے حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جو تکلیفیں وہ اس ڈی چوک میں اٹھا رہے ہیں انکے لیڈر ان میں سے کوئی ایک تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکیں گے اور تو اور وہ اپنے ان چاہنے والوں سے عید کے دن گلے بھی نہیں ملے ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے اللہ تعالی پاکستان اور پاکستان کی معصوم عوام پر رحم فرمائے اور ملک دشمن سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنائے (آمین)۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر۔روہیل اکبر
03466444144