انتخابی دھاندلی کی گونج ایوان میں

General Eection

General Eection

مئی 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے معاملہ پر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آمنے سامنے آگئیں، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے تحریک انصاف کو احتجاج میں رخنہ نہ ڈالنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر تحریک انصاف کا تجویز کردہ بنایا گیا۔ نگران سیٹ اپ بھی انہی کے تجویز کردہ ناموں پر بنایا گیا، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے حلقہ کے ایک پولنگ سٹیشن سے بھی دھاندلی ثابت ہو جائے تو مستعفی ہو جائوں گا۔

ناانصافی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہمارے ساتھ ہوئی ہے۔ تحریک انصاف عدالتوں کو ڈکٹیٹ کرنے کا سلسلہ بند کرے، چار حلقے حکومت چار حلقے اپوزیشن کی مرضی کے لیکر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا کر تحقیقات کرائی جائے مگر دھرنا، عدالتی کارروائی اور کمیٹی اکٹھے نہیں چل سکتے۔ عمران خان نے کہا کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں کر رہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت گرانا نہیں چاہتے۔ احتجاج میں رخنہ نہ ڈالا جائے ورنہ حالات خراب ہوں گے اور احتجاج تشدد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ چار حلقوں میں شفاف تحقیقات ہوتی تو آج معاملہ احتجاج تک نہ آتا۔ شفاف تحقیقات کے مطالبے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہمیں انصاف نہیں ملا اس لئے سڑکوں پر آئے ہیں۔ نکتہ اعتراض پر عمران خان نے کہا کہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا مطالبہ کرنا جمہوریت کو ڈی ریل کرنا نہیں بلکہ نظام کی مضبوطی کے لئے ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔ میرا دھاندلی کے حوالے سے کیس ہائی کورٹ میں 9 ماہ سے پھنسا ہوا ہے۔ حامد خان نے97 لاکھ روپے خرچ کر دیئے معلوم ہوا ہے کہ 325 بیگز میں صرف70 سیل تھے باقی ڈھائی سو کھلے ہوئے تھے ایک لاکھ70 ہزار ووٹوں میں سے 90 ہزار ووٹوں کا علم نہیں تھا۔ اگلے انتخابات کے لئے دھاندلی قبول نہیں۔ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے۔ ہم نے65 میں سے صرف چار حلقوں کی بات کی تھی مگر اس پر مثبت جواب نہیں ملا ہمارے احتجاج کو روکا گیا تو پھر یہ غیر جمہوری اقدام ہوگا۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ایوان کو یقین دلایا کہ تحریک انصاف کی جانب سے ان کا احتجاج سیاسی، جمہوری ہے تو پھر ہم 11 مئی کو اسے کسی صورت نہیں روکیں گے ان کو اجازت ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ اس حوالے سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

اگر الیکشن میں کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی یا ناانصافی ہوئی ہے تو جمہوری اور آئینی دائرے میں احتجاج حق ہے۔ سکیورٹی اور روز مرہ کے معمولات کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ ایک جگہ کا تعین ضرور ہونا چاہئے۔ میں نے کہا تھا کہ چار حلقوں کی بجائے چالیس حلقوں کے نتائج کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے مگر اس کا اختیار حکومت کے پاس نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کے معاملے پر ضروری نہیں تھا کہ پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں کو اعتماد میں لیں لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کی، فخرو بھائی بھی تحریک انصاف کا انتخاب تھے۔ نگران سیٹ اپ پر ہمارے پیش کردہ ناموں کو مسترد کر دیا گیا۔ نجم سیٹھی کے خلاف میری پریس کانفرنس اور میاں شہباز شریف کا بیان ریکارڈ پر ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ جمہوریت انتہائی نازک مراحل سے گزر رہی ہے اگر جمہوریت کو بار بار ڈی ریل نہ کیا جاتا تو ہم غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہوتے۔

Elections

Elections

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جلسوں اور پریس کانفرنس میں بات کرنا اور ہوتا ہے اصل حقائق بتائے جانے چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے جہانگیر ترین تو ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے رہے حالانکہ کل خرچ 15 لاکھ ہے لیکن انتخابات میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے مہم چلائی گئی۔ کاظم خان کا فیصلہ سامنے ہے اسے دیکھ لیں۔ جہانگیر ترین خود انگوٹھوں کے نشانات رکوانے کے لئے درخواست دیئے ہوئے ہیں۔ سچ کیوں نہیں بولتے۔ جو لیڈر ہائی کورٹ تین سو کارکنوں کے ہائی کورٹ جاتے تو وہاں ہنگامہ ہو جاتا ہے اگر وہی لیڈر تین ہزار کارکنوں کے ساتھ سپریم کورٹ آئے جائے تو پھر کیسے امن ہوگا۔ پہلے کارکنوں کی تربیت کی جائے۔ کسی کو بھی عدالتوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔

دھاندلی کا جھوٹ بولنے والوں پر بھی کسی آرٹیکل کا اطلاق ہونا چاہئے۔ پھر کہا جائے گا کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں اگر آزاد ہیں تو پھر کیوں الزام تراشی کی جارہی ہے۔ چودھری نثار علی خاں نے عمران خان کو انتخابی دھاندلی کے خلاف پھر مشترکہ طور پر سپریم کورٹ سے رجو ع کرنے کی پیشکش کی۔ چودھری نثارعلی خان نے کہا 11 مئی کو اسلام آباد انتظامیہ تحریک انصاف کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔ احتجاج پرامن ہونا چاہئے، ہمیں احتجاج کا طریقہ کار طے کرنا چاہئے۔ کاروباری حضرات سمیت عام لوگوں کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنے پڑے، سکیورٹی کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا، احتجاج کی شدت کا اندازہ جگہ سے نہیں بلکہ افراد کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔

عمران خان نے 11 مئی کو احتجاج کے اعلان کے بارے میں کہا کہ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے ہم جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہ رہے ہیں، شفاف الیکشن کی ہماری ڈیمانڈ کو غلط رنگ نہ دیا جائے، ہم نے الیکشن کے نتائج تسلیم کئے ہیں نہ کہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی، جمہوریت کی راہ میں باقی تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں اب اگر رکاوٹ ہے تو انتخابی سسٹم اسے درست کرنا ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں اس قسم کی دھاندلی نہ ہو، ہم ایک سال سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ عمران خان کو انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہے تو وہ الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ سے کریں، ہم بھی چاہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے، انتخابات کے دوران پنجاب میں ایک کلرک سے لے کر چیف منسٹر تک تمام کے تمام تبدیل ہوئے اسی طرح سندھ، خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی سرکاری ملازمین تبدیل کیے گے، عمران خان نے کہا کہ جمہوریت کے راستے میں جورکاوٹ ہے۔

وہ فری اینڈ فیئر الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے ہے، یہاں تو حال یہ ہے کہ جو الیکشن ہارے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی اور جو الیکشن جیتے ہیں وہ بھی دھاندلی کی شکائت کرتے ہیں، ہم نے سسٹم کو درست کرنے کے لئے تجاویز دیں ہیں، چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات ہوں تو آئندہ سسٹم کو درست کرنے میں مدد ملے گی،خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان نے جو اعدوشمار پیش کیے ہیں وہ ان کو چیلنج کرتے ہیں، یہ بات کہہ دیناکہ دھاندلی ہوئی ہے آسان ہے مگر ٹھوس ثبوت دینا مشکل کام ہے، نگران وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے تقرری کے وقت سب سے رائے لی گئی، پہلے انہوں نے آنکھیں کھلی رکھنا چاہے تھی، تحریک انصاف کے مطالبے پر ریٹرننگ افسر حاضر ڈیوٹی جج لگائے گئے، پنجاب کے 70حلقوںمیں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں،حلقہ این اے 125 میں 700 پولنگ بوتھ بنائے گے تھے

Khawaja Saad Rafiq

Khawaja Saad Rafiq

پولنگ کے دوران 8 بجے سے 5 بجے تک کسی ایک نے بھی ایک ووٹ کوبھی چیلنج نہیں کیا ، 48 گھنٹے تک دھاندلی اور لڑائی جھگڑے کی کسی نے شکائت نہیں کی، آپ سے زیادہ مجھے فیصلے کی جلدی ہے، پی ٹی آئی کے امیدوار نے ریٹرننگ افسر کی بے عزتی کی جس کی وجہ سے انہوںنے کیس سے علیحدگی اختیار کرلی، مقناطیسی سیاہی فراڈ تھا، سعد رفیق نے کہا کہ حریک انصاف عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنے کی بجائے محض مطالبے اور خواہش کی بنیاد پر مرضی کے فیصلے مانگ رہی ہے۔

تحریر:قرة العین