شاہ محمود مومند کا نوجوان نسل کے لیے بابائے قوم پر لکھی گئی کتاب نوجوانوں کے رہنما، قائداعظم

Tabsira Kutab

Tabsira Kutab

ضلع مومند (شاہ محمود خان مومند) شاہ محمود مومند کی کتاب ”نوجوانوں کے رہنما، قائداعظم”پڑھنے کو ملا، بہترین آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی یہ کتاب نہ صرف علمی مواد سے بھرپور، تاریخی واقعات سے لبریزاور قائداعظم کی شخصیت پر ایک معلوماتی کتاب ہے بلکہ ایک بہترین تحفہ بھی ہے۔ کتاب کے ٹائٹل پر بھی فنکاری کا نہایت ہی زبردست مظاہرہ کیا ہے، جو کہ خود شاہ محمود مومند نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے، ٹائٹل کے دو حصے ہیں جن میں ایک حصے 1947ء سے پہلے کے حالات جبکہ دوسرے حصے میں ترقی یافتہ پاکستان کے تصاویر ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ قائداعظم1947ء سے پہلے کے حالات میں تقریر کر رہے ہیں اور قوم کو مسلمانوں کے ملک پاکستان کا تصویر دکھا رہے ہیں۔

کتاب کی ڈیزائننگ، کمپوزنگ اور ٹائٹل عرض الف سے لے کر ی تک مصنف نے خود کی ہے، کتاب کی پبلشر لٹون پبلشر پشاور ہے جبکہ حمزہ نیوزایجنسی میاں منڈی میں کتاب قارئین کے لیے دستیاب ہونگے۔ 120صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 100روپے ہے۔

کتاب میں کئی اہم موضوعات پر لکھا گیا ہے جن میں ”آزادی کا راز” بیان کیا ہے، جبکہ قائداعظم کا مختصر تعارف، ان کا خاندان اور پیدائش کا قصہ نہایت ہی زبردست الفاظ میں بیان کیا ہے جو کہ طلباء و طلبات اور نوجوانوں کے لیے باعث دلچسپی ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم کے عائلی زندگی کے ان پہلوؤ پر بھی روشنی ڈالی ہے جن کا نسل نو کو علم تک نہیں۔ جس میں قائداعظم کی شادیوں اور کاروبار کا ذکر ہے۔ مصنف نے قائداعظم کے تعلیم کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے، جس میں پرائمری سے لے کر برسٹری تک تعلیم کا نہایت روانی کے ساتھ بیان ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم کے پسندیدہ کھیل اور ان کھیلوں کی پسندیدگی کی وجوہات کو بھی خوبصورت اور مدلل انداز میں کیا ہے۔

قائداعظم کے سیاسی زندگی کے حوالے سے مصنف نے نہایت ہی شگفتہ اور مزاحیہ انداز میں آغاز کیا ہے، چودہ نکات کا ذکر آتے ہی ہر طالب علم کو اپنی زمانہ طالب علمی یاد دلاتا ہے۔اگر آپ ایک دفعہ اس باب کو پڑھنا شروع کریں گے تو ایک ہی نشست میں ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بیش بہا معلومات بھی ہاتھ آئینگے۔ اگلے باب میں مصنف نے تصور پاکستان کا مکمل خاکہ سلیس زبان میں بیان کیا ہے، جبکہ ”قائداعظم اور نوجوان نسل” کے موضوع پر بھی کافی زبردست بحث کی ہے، جس میں قائداعظم کا ان سے امیداور ان کی تحریک پاکستان میں اہمیت پر زور دیا ہے، اس باب میں مصنف نے نہایت کمال مہارت سے کام لیا ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم اور اقبال، قائداعظم اور فاطمہ جناح، قائداعظم اور خواتین کے موضوعات پر بھی دلچسپ اور کارآمد باتیں لکھی ہے، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قائداعظم ہر جگہ ہر کسی کی اہمیت سے بخوبی واقف تھا۔

اگلے باب میں قائداعظم اور اسلام، پاکستان اور اسلام، قائداعظم اور اقلیتوں کے حقوق پر بات کی گئی ہے، جس میں قائداعظم کا پیغمبر خدا حضرت محمدۖ اوراسلام سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے، جبکہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائداعظم کے تقاریر سے حضورۖ کے احادیث کے حوالے دیئے ہیں۔ یعنی قائداعظم اسلامی پاکستان میں ریاست مدینہ کے طرز حکومت چاہتے تھے اور فتح مکہ جیسی عام معافی، اقلیتوں کے حقوق، ان کے ساتھ رویئے کی بات کرتے تھے۔ جنہیں مصنف نے نہایت ہی زبردست انداز میں قائداعظم کا سوچ نوجوان نسل کو پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ قائداعظم کی زندگی کے اہم اور چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کیا ہے جس سے قائداعظم کی زندگی کے مکمل اصول اور ضابطہ حیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگلے باب میں مصنف نے قائداعظم کے تقاریر سے بھی زبردست اقوال اور فرمودات کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے بعد مصنف نے ”قائداعظم، مشاہیر کی نظر میں” لکھی ہے جس میں ان مشاہیر اور اہم شخصیات کا قائداعظم کے حوالے سے تاثرات کا ذکر ہے جو غیر ہو کر بھی قائداعظم کے کارناموں کے اعتراف کرتے ہیں۔

کتاب میں ننھے بچوں کا قائداعظم کے نام خطوط اور تحریک پاکستان میں چندہ دینے کا بھی ذکر ہے، جس سے بچوں کا قائداعظم کے ساتھ محبت اور ان پر اعتماد کابخوبی ظاہر ہوتی ہے،جبکہ پاکستان کی آزادی کے لیے ان کی لگن اور اخلاص کو نہایت ہی زبردست انداز میں بیان کیا ہے۔ باب ”زندگی کا آخری سال” میں مصنف نے جدائی کا یہ سال ایسے انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری سوچتا ہے کہ وہ ان آخری آیام میں قائداعظم کے ساتھ تھا۔ مصنف نے جدائی کے اس سال کا ذکر کرتے ہوئے نوجوان نسل کو قائداعظم کا پاکستان کے ساتھ محبت، قوت فیصلہ، خوداعتمادی اور بے مثال قربانیوںکو یاد دلایا ہے۔

چونکہ مصنف خود بھی نوجوان ہے اور ملک کے ساتھ بے تحاشہ محبت رکھتے ہے، جس کا اندازہ ان کی طرز تحریر سے ہوتا ہے، ہمیں چاہئے کہ ایسے ہی لوگوں کی قدر کرے، ان کی بہتر رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کو ہر قسم سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے تاکہ وہ ہماری خدمت میں ایسے ہی گراں قدر اور معلوماتی کتب فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکے۔ ایسے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرناچاہئے جو ہمیں اپنے اسلاف یاد دلاتے ہیں اور ملک و قوم کی ترقی میں بغیر کسی لالچ کے ترقیافتہ معاشرہ تشکیل دینے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔