جمن شاہ کا گیلانی سیّد

Shah Wali Allah

Shah Wali Allah

”میں اُن علماء ِحق کا پرچم لئے پھرتا ہوں جو 1857ء میں فرنگیوں کی تیغ ِ بے نیام کا شکار ہوئے ربِ ذوالجلال کی قسم مجھے اِس کی کچھ پرواہ نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں لوگوں نے پہلے ہی کب کسی سرفروش کے بارے میں راستبازی سے سوچا ہے وہ شروع سے تماشائی ہیں اور تماشا دیکھنے کے عادی، میں اس سرزمین میں مجدد الف ثانی کا سپاہی ہوں شاہ ولی اللہ اور اُن کے خاندان کا متبع ہوں، سیّد احمد شہید کی غیرت کا نام لیوا اور شاہ اسمٰعیل شہید کی جرات کا پانی دیوا ہوں میں اُن پانچ مقدمہ ہائے سازش میں پابہ زنجیر صلحائے اُمت کے لشکر کا ایک خدمت گزار ہوں جنہیں حق کی پاداش میں عمر قید اور موت کی سزائیں دی گئی تھیں، ہاں، ہاں میں اُنہی کی نشانی ہوں، اُنہی کی صدائے بازگشت ہوں میری رگوں میں خون نہیں آگ دوڑتی ہے میں نے شیخ الہند کے نقش قدم پر چلنے کی قسم کھا رکھی ہے میں زندگی بھر اس راہ پر چلتا رہوں گا میرا اس کے سوائے کوئی موقف نہیں میرا ایک ہی نصب العین ہے برطانوی سامراج کی لاش کو کفن یا دفنانا ہر شخص اپنا شجرہ نصب ساتھ رکھتا ہے میرا یہی شجرہ نصب ہے میں سر اونچا کر کے فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں اُسی خاندان کا ایک فرد ہوں۔

23مارچ 1947 کو ایک سیّد کی زبان سے نکلنے والے یہ الفاظ جیسے فضا میں معلق ہو کر رہ گئے جس کی آدھی زندگی جیل میں اور آدھی زندگی ریل میں گزری جمن شاہ کے سیّد کے پاس بھی جرات اظہار ہے وہ سٹیج پر کھڑا ہو کر جب لفظوں کی جنگ لڑتا ہے تو مسلمانوں کا ماضی کہیں دور دریچوں سے چھن چھن کرتی روشنی کی طرح نظر آتا ہے شدید جذبے کی آنچ، حسین لفظیات کا زیرو بم اور لطیف معانی کی جدت آفرینی یہ سب لوازمات جمن شاہ کے گیلانی سیّد کے ہاں وافر مقدار میں زینت آرائے بزم ہیں کسی بھی حکومتی ایم پی اے یا ایم این اے کے گماشتے لاکھ چاہیں اُس کے شانہ بشانہ کھڑی عوام کی طاقت کو متزلزل نہیں کر سکتے، دوستوں کی محرومیوں اور نامرادیوں سے ہر کوئی ہمدردی کر سکتا ہے لیکن ان کی کامیابیوں سے ہمدردی کرنے کیلئے بے حد بلند فطرتی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم بد قسمتی سے ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں کسی کی محنت کا اعتراف نہیں کیا جاتا جہاں کسی کی کامیابی میں ایسی چیز ضرور ہوتی ہے جس سے ایک بڑا طبقہ حسد کی آگ میں جلتا ہے نئی تہذیب بھی اس وقت جنم لیتی ہے جب کوئی فرد کسی مشکل صورت حال پر قابو پانے کیلئے غیر معمولی قوت عمل سے کام لے فکر سے محروم قومیں بالآخر تباہ ہو جاتی ہیں۔

Allah

Allah

جانے کس دورِ ناہنجار کی زد میں ہیں کہ ایک مخصوص طبقہ لیڈر شپ کے تصور کو قتل کرنے کی روش پر چلتے ہوئے ایسے اقدامات کر رہا ہے جس سے حب الوطنی پس منظر میں گرتی جا رہی ہے دانشور طبقہ بھی قلم کے کاروبار میں مصروف ہے دولت کی چاشنی میں وہ منظر دھندلا رہا ہے جس میں عوام کی آوازوں کی گونج سید افتخار شاہ گیلانی کی شکل میں سنائی دے رہی ہے عرصہ پہلے جب جمن شاہ کے سیّد سے ملا تو ایک درویش کا اوڑھنا، بچھونا دیکھنے کو ملا جس کے آستانے پر سسکتی انسانیت کے طلاطم میں ٹھہرائو اور سکون دیکھا تب ایک رفیق نے کہا کہ ”اللہ والے کا ڈیرہ ہے” سچ تھا کہ جب رویوں میں رعونت، تکبر اور برتری کا رحجان غالب ہوتا جا رہا ہو تو سکون اللہ والوں کی محفلوں اور آستانوں سے ملا کرتا ہے۔

میں نے شاہ جی کو فرسودہ نظام کے خلاف ہمیشہ اور ہر فورم پر لڑتے دیکھا آج کی فرسودہ سیاست میں یہ اعجاز ایک سیّد کا ہی ہو سکتا ہے جو وطن عزیز کی ستم رسیدہ گلیوں سے کچلی ہوئی مخلوق کے جذبات کو انقلاب کی یلغار بن کر نکلنے کا سندیسہ سناتا ہے معاشروں میں ایسی شخصیات روشن مستقبل اور درخشاں سیاسی مقام کی نشاندہی ہوا کرتی ہیں انہوں نے معاشرے کے ایک فعال نمائندے کے طور پر زندگی کو بہت قریب سے دیکھا وطن عزیز کے دور دراز خطوں میں استعمار کی باقیات کے ہاتھوں مظلوم و بے کس لوگوں کی چیختی چنگھاڑتی زندگی کوملاحظہ کیاتو ایک حساس دل میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمارے ہاں رائج طبقاتی نظام ِ سیاست و معیشت انسانیت کا منہ نوچ رہا ہے۔

وہ سٹیج پر اُس بستی کا مقدمہ لڑتا ہے جس کا باسی میں بھی ہوں اور آپ بھی ہیں خون آشام منظروں میں ڈوبی ہوئی وہ بستی جہاں آنکھ کے دشت میں دہکتے ہوئے الائو لیئے زندگی کی دہلیز پر بیٹھا ہوا انسان دل کے گرداب میں ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح ہمہ تن رقص آرزوئوں کی تال پر ماتم کناں ہے، جہاں سلگتے ہوئے دنوں میں پگھلتی سڑکوں کی چھاتیوں پر سیاہ بجری اُٹھانے والے مزدور اُداس صبحوں اور ویران شاموں کے دائروں میں دکھوں کی زنجیروں کی جکڑ بندیوں میں کراہتے ہوئے گھومتے اور بس گھومتے چلے جارہے ہیں میں جب جمن شاہ کے گیلانی سیّد کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ لرز لرز کر اُبھرتی اور اُبھر اُبھر کر لرزتی ہوئی سانسوں کی لو شب کے گھٹا ٹوپ دریچوں سے کسی سبز تارے کو صدا دے رہی ہے جس کی ہتھیلیوں پر آنے والے شفاف اور دھنک رنگ موسموں کی کہانی لکھی ہو۔

جمن شاہ کا گیلانی سیّد وقت کے صفحوں پر دست جرات سے انقلاب کی عبارت لکھ رہا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ طوفان اونگھتی رات کے شانوں کو جنجھوڑتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے جو نواحِ ظلمت میں قریہ قریہ نئی سحر کے علم گاڑھتا جارہا ہے اور وقت منتظر ہے جب شعلہء انتقام میں یہ دو نمبر وڈیرے، سرمایہ دار، جاگیردار فرسودہ نظام سمیت جل کر راکھ ہونے والے ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک