غلامی میں آزادی

Freedom

Freedom

تحریر : شاہ بانو میر

دل اداس ہے آج ایک پیاری ہستی نفیس خاتون فرانس سے پاکستان چلی گئیں

عورت کی زندگی میں باپ بھائی شوہر بیٹا کیا کردار رکھتا ہے

یہ پوچھیں

اس حرماں نصیب عورت سے جو شوہر کی وفات کے بعد

ریزہ ریزہ ہستی کو کسی نہ کسی طرح سمیٹ کر

پاکستان والدین کے پاس سدھاری ہے

کہ

وہ رشتوں کے حصار میں مضبوط اور پرسکون رہے گی

دوسری جانب پاکستان میں یہ کیا ہو رہا ہے؟

سوشل میڈیا پر عجیب تماشہ دیکھا

آزادی آزادی عورت کو چاہیے آزادی؟؟

دوپٹے سے بے نیاز نحوست کے ڈوگرے برستے چہرے

بد حواس بکھرے بال کھنڈر بنے پچکے گال

نور سے سکون سے محروم چہرے تھے

مردوں کی آڑ میں اپنی آزادی کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کرخود کو

سڑکوں پر رول رہی تھیں؟

کس سے نجات چاہتی ہیں ؟

گھروں کی چار دیواری سے ؟

شوہر کے حصار سے ؟

اولاد سے؟

بھائیوں کے سائے سے ؟

پاکستان کے خاندانی نظام کو چیلنج کرنے والی

یہ حواس باختہ فاختائیں

کہاں سے اڑ کر یہاں پہنچی ہیں ؟

پاکستان کی نہیں کسی اور ہی تہذیب کی آئینہ دار ہیں

ان کی جانچ پڑتال کی جائے

تو

معلوم ہوگا

یہ کسی بین القوامی مافیا کا حصہ ہیں

جو دین کو کمزورکرنے کیلئے اسلامی ممالک میں سرگرداں ہے

ان عورتوں کے ساتھی ان ممالک میں فلم انڈسٹریز فیشن میں ایک خاندان کی طرح رابطے میں ہیں

نعرے مارتی مردوں کو کھلم کھلا للکارتی چِلاتی یہ کون ہے؟

اسکو علم نہیں ہے

کہ

پاکستان کی عورت تو باپ کے گھر ہے تو شہزادی بنی راج کر رہی ہے

بیوی ہے تو مہارانی بنی اپنی ریاست کے معاملات دیکھ رہی ہے

ماں ہے تو ملکہ عالیہ بنی خاندان کی نگہبانی کرتی ہے

پھر یہ کس عورت کی آزادی کی خواہاں ہیں ؟

سڑکوں پر نکلی ہوئی یہ عورتیں تو

گھر میں بیٹھی عورتوں کیلئے عبرت کا نشان ہیں

ذرا سوچیں

عورت سمیت اس ملک کا نظام کیسے بدلا گیا

کس نے یہ سب بدلا؟

کچھ عرصہ قبل پاکستان میں معیار زندگی یہ تھا؟

آج ہر چیز ہر تعلق کاروباری بنا دیا گیا

صرف پیسہ اور صرف پیسہ

رشتے بزرگی تعظیم عزت ادب سب خواب ہوگیا

یہی ہمارا سرمایہ تھا

جو ان کے غیر ملکی آقاؤں کو کھلتا تھا

گلوبل ویلج کا نعرہ لگا کر ان جیسی متزلزل سوچ کی حامل عورتوں کو

اکٹھا کر کے

بہترین مراعات دے کر انہیں اسلام کے خلاف سامنے لایا جاتا ہے

پھر

ان کی حمایت کے لیے عورتوں کی مصنوعی بھِیڑ پیسے خرچ کر کے لائی جاتی ہے

یوں ہم دقیانوسی قرار دیے جاتے ہیں

گلوبل ویلج کا نفاذ ضروری قرار دے کر

ہم سے ہماری دینی شناخت علاقائی ثقافت خاندانی رواداری گھریلو ادب چھین کر

ہمیں

اپنے جیسا تہی دست بنا دیا جاتا ہے

جس کے پاس کوئی انفرادی شناخت نہیں ہے

جبکہ

ہمارے پاس تو اسلام جیسا قیمتی گوہر نایاب ہے

جو ہمیں ہمیشہ ہر کسی سے الگ منفرد دکھاتا ہے

اسی پہچان کو ختم کرنا طاغوتی طاقتوں کا خواب تھا

جسے ان عورتوں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے

انشاءاللہ ناکامی ہوگی

ان طاقتوں نے ملوسات کی آڑ میں اپنے نوکیلے پنجے گھر گھر گاڑ کر

ملک کی بہنوں بیٹیوں کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے

“”انتہاء پسندی””

ختم کرنے کا بیرونی ایجنڈا اتنا بھایا کہ ہر حکومت نے

انتہاء پسندی کے لئے”” اعتدال پسندی “”ہی کھو دی

انکی کوشش یہی ہے

فیشن انڈسٹری سے نت نئے افکار کا پرچار کیا جائے

نئی نسل کو دلفریب انداز سے اپنی جانب مائل کر کے

انہیں مخلوط نظام کی اہمیت اور کامیابی سمجھائی جاتی ہے

یوں نوجوانوں کے اندر سے دینی غیرت نکال کر”” مفاہمتی فلٹر”” لگا دیا جاتا ہے

نتیجہ

کل کا اسلام دشمن ملک

آج تجارتی فائدہ بن جاتا ہے

دینی سوچ پسپا کر دی جاتی ہے

اور

شیطان کو عزت کا تاج پہنا کر آج خوب دنیا میں تجارتیں کی جا رہی ہیں

سادہ گھریلو مائیں فرسودہ ہو گئیں

اب سامنے یہی ممی نما عورتیں ہیں

جو واقعی ہزاروں سال پرانی حنوط شدہ ممی ہیں

ذہن مردہ دل خالی

صرف اسلامی شدت پسندی پر چیختی ہیں

غیر ملکی آقاؤں سے شاباش وصول کرتی ہیں

یہ آزادی کا نعرہ بلند کرتی وہ مخلوق ہے

جس نےذرا سا ہوش سنبھالا تو اپنی سوسائٹی کے دستور کے مطابق

بیرون ملک تعلیم کیلئے پردیس سدھاری

بیرون ملک قیام کے دوران وہاں کی آزادی طبیعت کا حصہ بن گئی

پاکستان آنے سے پہلے ہی بین القوامی بڑی بڑی کمپنیوں سے جاب حاصل کر کے

نئی سوچ نیا بزنس لے کر ملک کی زمین پر پاؤں رکھتی ہیں

ان کے ہدف رنگین خوشنما تصنع سے مزین دنیا ہے

فیشن انڈسٹری ان کی بہترین جائے پناہ ٹھہری

ان کا ہر انداز عام عورت کی زندگی سے بالکل ہٹ کر ہے

جو عورت انہیں سننا دیکھنا پسند نہیں کرتی

وہ ان جیسا حال حلیہ بنانے سے نفرت کرتی ہے

وہ کیا ان کے قبیح انداز کی حمایت کرے گی

وہ کسی قسم کی کوئی آزادی نہیں چاہتی

آج کی باشعور لڑکی عورت جانتی ہے

آزادی دراصل فریب ہے معاشرے پر حاوی مافیا کا

جن کی ایجنٹ ایسی عورتیں ہیں

نفرت کرتی ہے پاکستانی عورت ایسی عورتوں سے

عام گھر کی عورت ان جیسی بے باکی سے سڑک پر

اس حلیے میں نکلنے کا تصور نہیں کر سکتی

کیونکہ

اس کا ملک اس کا معاشرہ اس کا خاندان

اس کا گھر اسے مکمل طور پے خوشگوار زندگی دے رہا ہے

پاکستانیو

یہ سڑک چھاپ عورتیں ان کے احمقانہ نعرے ان کی اوٹ پٹانگ بونگیاں

مطالبات نہیں ہیں

یہ غیر ملکی اسلام دشمن سوچ کی پجاری ہیں

جس کو پاکستان سے باہر سپورٹ کیا جا رہا ہے

اس سارے ڈرامے کے عوض انہیں ملیں گے

نئے بیوٹی پارلر

نئے کانٹریکٹ

نئی تشہیری فلمیں

نئے ڈرامے نئی فلمیں

جو اس معاشرے کو دشمن سے دو دو ھاتھ کرنے والے

صلاح الدین ایوبی نہ دیں

خالد بن ولید

طارق بن زیاد

نہ دیں محمد بن قاسم

نہ دیں

البتہ

مرد نما بلو رانیاں پیدا کر کے آزاد پسند معاشرہ دیں گے

جن کے کاروبار مغربی ممالک میں روابط اولادیں

ان کے کام نوکریاں سب کے سب باہر ہیں

اللہ سے دعا ہے

کہ

ہر ایسی ناپاک ذہنیت کو جو ہمارے ملک کے

خوبصورت معاشرے کو تنزلی کی جانب لے کر جائے

انہیں ہدایت عطا فرمائے آمین

انہیں شعور نہیں کہ

دنیا میں جہاں عورت نے آزادی کا شور بلند کیا

آزادی کے عوض

وہاں وہاں عورت کی کیسے تذلیل کی جاتی ہے

یہ بے شعور نادان عورتیں

“” آزادی کے نام پر عورت کی موت مانگ رہی ہیں “”

ان سے کہنا ہے کہ

پاکستان میں پیرس سے گئی اس عورت سے ملیں

جو آج پیرس کا حسن آزادی موسم چھوڑ کر

والد بھائی کے ساتھ تحفظ اور سکون سے زندگی گزارنے

آٹے میں نمک جتنی یہ جدت پسند عورتیں اور ان کے ناکام ارادے

پاکستانی عورت پرکوئی اثر نہیں چھوڑتے

کیونکہ

عورت کا غرور اس کا اصل اس کے گرد رشتوں کے یہی حصار تو ہیں

جن میں وہ کامیاب شاندار انداز سے اپنی سلطنت کے تخت پر بیٹھی راج کرتی ہے

وہ بخوبی جانتی ہے اے نادان عورتو !!

“” غلامی میں آزادی ہے “”

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر