سوشل میڈیا یا شوگر میڈیا؟

Social Media

Social Media

آج ہر طرف سوشل میڈیا کی تعریفیں اور چرچے ہیں مگراس کے نقصانات اس کے فوائد سے بہت زیادہ ہیں، آج سب لاعلم ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا نشہ اور جدید ٹیکنالوجی نئی آنے والی نسل کی صحت پر کیا بھیانک اثرات مرتب کرے گی۔ آج ضرورت ہے کہ لوگ سوشل میڈیا کی تصوراتی ،خیالی زندگی سے عملی زندگی میں واپس آ جائیں اور ان خطرناک بیماریوں سے بچ جائیں جو اس میڈیا کا نشہ لگنے والے افراد کو شکار کرتی ہیں۔یہ حقیقتاایک نشہ ہے کیونکہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کی تازہ تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے دماغ کا وہی حصہ متحرک ہو جاتا ہے جو ہیروئن ،چرس، افیون،کوکین استعمال کرتے ہوئے نشئی افراد کا ہوتا ہے۔

ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے مگر سوشل میڈیا استعمال شروع کرنے کے بعد اپنے آپ پر کنٹرول کرنا ناممکن ہوتا ہے اسلئے سوشل میڈیا پر روزانہ وقت دینے والے افرادکی روزہ مرہ کی روٹین انتہائی خراب ہو جاتی ہے ۔کھانے ،پینے ،سونے، کمانے، نہانے، دھونے سے بے خبر سوشل میڈیا کے عادی افرادصفائی، فیملی ،مذہب اور اپنی صحت کے لئے وقت نہیں نکالتے ۔کچھ لوگ سگریٹ،بازاری اور فاسٹ فوڈ کھانے اور کولا بوتلیںبھی زیادہ پیتے ہیں اور یہ سارا لائف سٹائل شوگر ،دل،جگر ،معدہ سمیت بے شمار بیماریوں کو دعوت دیتا ہے

سوشل میڈ یا،ٹیب،سمارٹ موبائل اور کمپیوٹر پرمسلسل بیٹھ کر کام کرتے رہنے سے پیٹ پر چربی سے توند بڑھ جاتی ہے ، وزن اور کولیسٹرول لیول بھی بڑھ جاتا ہے،اور اس سے شوگر کا مہلک ، لاعلاج اور انتہائی خطرناک موذی مرض لاحق ہو جاتا ہے اس لئے سوشل میڈیا کو شوگر میڈیا کہنا زیادہ بہتر ہوگا ، کرسی پر بیٹھنے والا کام کرنے والے لوگوں کی عمر کے کئی سال کم ہو جاتے ہیں۔یہ لوگ عموما رات کو جاگتے ہیں اور حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق رات کو جاگنے سے بھی شوگر کا لاعلاج مرض بہت جلدی لگ جاتا ہے اور اس کو سب بیماریوں کی ماں کہا جاتا ہے۔

ہسپتالوں کے ہسپتال آج شوگر کے مریضوں کے دم سے آباد ہیں اور کوئی بعید نہیںکہ آج سے محض چند سال بعد ہی ہر ہسپتال میں سوشل میڈیا کے پیدا کردہ امراض اور مریضوں کے لئے ایک نیا شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف سوشل میڈیالوجی قائم کرنا پڑے۔

سوشل میڈیا کے پیدا کردہ امراض میں شوگر سب سے زیادہ زہریلی بیماری ہے۔اس مرض میں لبلبہ کام کرناکم کر دیتا ہے، خوراک توانائی میں تبدیل نہیں ہوتی ،جسم کی طاقت ختم ہو جاتی ہے،میٹھی چیزیں منع ہو جاتی ہیں اور جس کو یہ شوگر ہو جائے وہ زندہ لاش بن جاتا ہے، اس کی کارآمد زندگی زیادہ سے زیادہ دس سال رہ جاتی ہے پھر اس کو انسولین لگانی پڑتی ہے اور ایسے فرد کی نگہداشت کے لئے کئی افراد کو 24گھنٹے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے، وہ اپنی بیوی کے ازدواجی اور مالی حقوق صحیح طرح ادا نہیں کرسکتے اس وجہ سے اس نشے کے عادی افراد کی بیویاں انہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہیں،بچوں کی نگرانی اورتوجہ نہ ہونے سے سوشل میڈیا پر زیادہ کام کرنے والے شوگر سے متاثرہ افرادکے بچے آوارہ، نکمے اور کاہل ہو جاتے ہیں۔

Property

Property

یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے نشے کے عادی یہ شوگر متاثرہ افراد اپنے خاندان کا معاشی بوجھ نہیں اٹھا سکتے بلکہ وہ اللہ کی زمین پردوسرے انسانوں،اپنے خاندان اور بیوی بچوں پر بوجھ بن جاتے ہیں،ان کی اپنی تنخواہ ساری بیماریوں کی دوائیوں اور علاج معالجے پر لگ جاتی ہے، بیوی بچوں کو بھیک مانگ کر ان سوشل میڈیا زدہ افراد کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، ساری جائیداد مہنگے علاج معالجے کا خرچہ پورا کرتے کرتے فروخت ہو جا تی ہے۔

سوشل میڈیا کے کام میں آنکھوں پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے، عینک لگ جاتی ہے، ان سوشل شوگر زدہ افراد کی آنکھوں کے پردہ میںخون جانے سے نالیا ں پھٹ جاتی ہیں اور یہ سوشل شوگر زدہ افراد یکایک اندھے ہو جاتے ہیں۔

شوگر کا برا اثر سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے والوں کے دانتوں پر بھی پڑتا ہے ، شوگر جڑوں کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کرتی رہتی ہے اور ایک دن اچانک صبح اٹھنے پر پتہ لگتا ہے کہ آج 32 کے 32 دانت منہ سے باہر آ گئے ہیں۔شوگر سے دانت اور مسوڑے خراب ہونے سے اتنی شدید ترین درد ہوتی ہے کہ بعض لوگ اس درد کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

سوشل میڈ یا پر زیادہ بیٹھ کر کام کرنے والے لوگ سست اور کاہل ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شوگر ہونے پر ان کو ڈاکٹر جب واک اور ایکسر سائز کا کہتا ہے توان موٹے شوگر متاثرہ افراد سے ایک قدم بھی اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے،اتنی شدید کمزوری ہو جاتی ہے کہ وہ باتھ روم کا برتن تک نہیں اٹھا سکتے، لڑکیاں کمزوری کی وجہ سے ہانڈی میں ڈوئی تک ہلانے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ان افراد کی ہڈیاں کیلشیم کی کمی سے اتنی کھوکھلی ہو جاتی ہیںکہ باتھ روم یا سیڑھیوں پر پائوں پھسلنے سے ان کی کمر، کولہے،گردن،بازو ،ٹانگ وغیرہ کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور یہ پھر ساری زندگی کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کام کرنے کی وجہ سے جن لوگوں کو شوگر ہو جاتی ہے ان کی ٹانگوں میں کرسی پر زیادہ بیٹھنے سے دوران خون رک جاتا ہے ۔ پائوں یا گھٹنے پر زخم یا پھنسی بن جائے تووہ ٹھیک نہیں ہوتے اور جان بچانے کے لئے پائوں یا ٹانگ بھی کاٹنی پڑ جاتی ہے ۔گذشتہ دنوں نورجہاں کی بیٹی ظل ہما کی ٹانگ شوگر کی وجہ سے کاٹ دی گئی تو وہ ٹانگ کاٹ دئیے جانے کے صدمہ کی وجہ سے ہی چل بسیں۔

شوگر کی انگریزی دوائیوں کے سائڈ افیکٹس کی وجہ سے گردے فیل ہو جاتے ہیں ،معدہ کام کرناچھوڑ جاتا ہے ، کومہ سے موت واقع ہو جاتی ہے، اس بیماری میں ہڈیوں اورپٹھوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ جگر کی بیماریاں،ہیپاٹائٹس،ٹی بی،برین ہیمریج ،سائلنٹ ہاراٹیک اور بے شمار تباہ کن بیماریاں لگ جاتی ہیں۔

حکیموں کے پاس اس بیماری کا علاج ہی نہیں آپ جس بھی توند زدہ بڑے سے بڑے حکیم کے پاس علاج کرانے کے لئے جائیں گے تو وہ خود بھی شوگر کا مریض ہی نکل آئے گا اس بیماری کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ شوگر ہونے سے قبل ہی شیطانی سوشل میڈیا زدہ لائف سٹائل سے پرہیز کیا جائے او ردن رات کمپیوٹرپر بیٹھنے کی بجائے کوئی اچھا،صحت منداور چلنے پھرنے والاکیرئیر اپنایا جائے۔

اس شیطانی میڈیا کا اثر بچوں پر بھی ہوتا ہے،بچوں کو بھی شوگر ہو جاتی ہے اس لئے والدین کو بچوں کو سوشل میڈیا ،کمپیوٹر ،موبائلز، ٹیب ،ویڈیو گیمز اور جنک فوڈ سے ہرقیمت پر دور رکھنا چاہئیے۔

سوشل شوگر زدہ بیمار افراد کے زخم اور چھالے جلدی ٹھیک نہیں ہوتے اور بڑی سخت تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے،بھارت کی مشہور اداکارہ پروین بوبی جس نے مسلمان ہونے کے باوجود فحاشی پھیلانے کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے ، شوگر کی بیماری کی وجہ سے اس کے جسم پر کیڑے پڑ گئے اوروہ تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کر اپنے فلیٹ پر تنہا دم توڑ گئی۔

ان شوگر کے مریضوں کی انتہائی تکلیف دہ و اذیت ناک زندگی اور عبرتناک انجام سے آج کی سوشل میڈیا کی دیوانی نئی نسل جو اس کوہی اپنا ماں ،باپ ،بیوی ،گرل فرینڈ،اولاد اور سب کچھ سمجھ بیٹھی ہے ،کیا وہ اس شیطانی میڈیا کے صحت ،ایمان ،فیملی لائف اورمعاشرے پربرے اثرات سے سبق سیکھ کراپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گی ۔آج فیصلہ کن عملی اقدام کا وقت ہے کہ حکومت ،ذمہ دار طبقے اوروالدین مل کرکوئی سماجی ضابطہ اخلاق طے کر کے سوشل میڈیا کے پیدا کردہ برے اثرات کے اس ایٹم بم اور آتش فشاں کو پھٹنے سے قبل ہی روک لیں۔

Naeem Islam Chowdhury

Naeem Islam Chowdhury

تحریر:نعیم الاسلام چودھری