کفر کے معاشرے اور ٹراسپرنسی رپورٹ

Transparency International Pakistan

Transparency International Pakistan

تحریر : روہیل اکبر

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی رپورٹ پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے درست نہیں ہونا بے شک دنیا ایدھر سے ادھر ہوجائے انہوں نے اپنی لوٹ مار اور کرپشن کا سلسلہ جاری رکھنا ہے ہم تو سب کچھ دیکھتے،سمجھتے اور جاننے کے باوجود اپنی آنکھیں کبوتر کی طرح بند کیے بیٹھے ہیں بلکہ جب تک ہم اپنے کسی جائز کام کے لیے بھی رشوت نہیں دے دیتے اس وقت تک ہمیں خود بھی سکون محسوس نہیں ہوتا یہاں پر تو ایک رضا کار سے لیکر اوپر تک ہر کوئی کھانے پینے میں مصروف ہے اس ملک کی کسی کو پرواہ ہے نہ اس ملک کے باسیوں کی بس لوٹ مار کا ایک سلسلہ جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا معاشرے میں ہر ذی فہیم شخص کا انسانی فریضہ بنتا ہے کہ وہ معاشرے میں ہر قسم کی اخلاقی بیراہ روی اور خاص کر منشیات کے خاتمے کیلئے اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ منشیات کی لعنت ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔

خاص کر اسی لعنت میں مبتلا ہوکر بعض لوگ بڑی سنگین وارداتیں بھی کرجاتے ہیں وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام معتدل اور روشن فکر افراد سامنے آکر نوجوانوں کو کردار سازی اور اخلاق سنوارنے میں فکری رہنمائی فراہم کریں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ یہ ہم ہیں یہ ہمارے محکمے ہیں اور یہ ہیں انکے اندر بیٹھے ہوئے لوگ جو ہمیں سانس بھی نہیں لینے دے رہے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن اور گورننس سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ حالانکہ پنجاب میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار کی سب سے زیادہ کوشش پولیس کو ٹھیک کرنے پر ہی ہے جو نظام برسا برس سے خراب ہوچکا ہو اسے راہ راست پر لانے میں وقت لگتا ہے پورے ادارے میں چند افراد کرپٹ ہوں تو کام چل جاتا ہے اور اگر صرف چند افراد ہی درست ہوں تو پھر یہی حشر ہوتا ہے جو آج ہماری پولیس کا ہے پولیس کے ساتھ ساتھ شعبہ عدلیہ کرپشن میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ بدعنوان اداروں میں ٹینڈر اور کنٹریکٹنگ سیکٹر تیسرے نمبر پر ہے محکمہ صحت چوتھے، لینڈ ایڈمنسٹریشن پانچویں، لوکل گورنمنٹ چھٹے، تعلیم ساتویں، ٹیکسیشن آٹھویں اور این جی اوز بدعنوانی میں نویں نمبر پر ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان سروے رپورٹ کے مطابق 51.9 فیصد لوگوں کا خیال ہے کمزور احتساب بدعنوانی کی وجہ ہے، 29.3 فیصد لوگوں کی رائے کے مطابق کرپشن کی وجہ طاقتور لوگوں کی لالچ ہے 18.8 فیصد لوگوں کا خیال ہے کم تنخواہ بدعنوانی کی بڑی وجہ ہے۔ رپورٹ میں 85.6 فیصد شہریوں نے وفاقی حکومت کی خود احتسابی کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ سروے میں شہریوں نے کہا کہ سخت ترین سزائیں، سزا یافتہ کرپٹ افراد کو عوامی عہدے پر آنے کی مکمل پابندی کی ضرورت ہے، مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے سے بھی کرپشن میں اضافہ ہوا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے میں 92 فیصد پاکستانیوں کی رائے میں گزشتہ تین سال کے عرصے میں مہنگائی اور اشیا کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں اس مہنگائی کی اہم وجہ کرونا کا وہ سیزن بھی تھا جو ہم نے پچھلے دو سال گذارا کیونکہ ہم بطور قوم اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کب ہمیں لوٹ مار کا موقعہ ملے اور ہم ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں نہیں یقین تو آپ ذرا غور فرمائیں کہ جیسے ہی رمضان المبارک شروع ہوتا ہے ہمارے رہڑی والے سے لیکر بڑے بڑے سٹورمالکان کجھور کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں صرف کھجور ہی نہیں بلکہ جو جو فروٹ اور کھانے پینے والی اشیاء افطاری میں کام آتی ہیں ان سب کی قیمتیں اپنی مرضی سے لگاتے ہیں۔

ہماری عدلیہ کا ماشاء اللہ سے دوسرا نمبر ہے یہاں کیس شروع ہوتا ہے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا عدالت کے باہر آواز لگانے والے سے لیکر اوپر تک جو ہوتا ہے وہ بھی سبھی جانتے ہیں بینظیر بھٹو نے ہی تو اسے چمک کا نام دیا تھا یہاں ایک عام آدمی حصول انصاف کے لیے اپنی اور خاندان کی جوتیاں گھسا لیتا ہے مگر اسے انصاف نہیں ملتا بلکہ تاریخ پہ تاریخ مل جاتی ہے اور بااثر افراد کو انصاف فراہم کرنے کے لیے چھٹی والے دن بھی عدالت لگا لی جاتی ہے عدلیہ ہماری ہو یا باہر کی انکے کچھ فیصلے تاریخ کا حصہ بن جاتے جن کو دیکھ کر معاشرے اپنی سمت متعین کرتے ہیں انصاف وہ ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے اسی حوالے سے ایک قصہ بھی پڑھتے جائیں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ انصاف ہوتا کیا ہے ملزم ایک 15 سالہ لڑکا تھا ایک اسٹور سے چوری کرتا ہوا پکڑا گیا پکڑے جانے پر گارڈ کی گرفت سے بھاگنے کی کوشش کی مزاحمت کے دوران اسٹور کا ایک شیلف بھی ٹوٹا جج نے فرد ِ جرم سنی اور لڑکے سے پوچھا تم نے واقعی کچھ چرایا تھا؟ جی بریڈ اور پنیر کا پیکٹ لڑکے نے اعتراف کرلیا۔

جب صاحب نے پوچھا کیوں؟ مجھے ضرورت تھی لڑکے نے مختصر جواب دیا۔جج نے کہاخرید لیتے لڑکے نے جواب دیاپیسے نہیں تھے ”گھر والوں سے لے لیتے” گھر پر صرف ماں ہے بیمار اور بے روزگار بریڈ اور پنیر اسی کے لئے چرائی تھی جس پر جج صاحب نے فرمایاتم کچھ کام نہیں کرتے؟ جس پر لڑکے نے جواب دیاکام کرتا تھا ایک کار واش میں ماں کی دیکھ بھال کے لئے ایک دن کی چھٹی کی تو نکال دیا گیا۔ ”تم کسی سے مدد مانگ لیتے”صبح سے مانگ رہا تھا کسی نے ہیلپ نہیں کی جرح ختم ہوئی اور جج نے فیصلہ سنانا شروع کردیا چوری اور خصوصاً بریڈ کی چوری بہت ہولناک جرم ہے اور اس جرم کے ذمہ دار ہم سب ہیں عدالت میں موجود ہر شخص مجھ سمیت اس چوری کا مجرم ہے میں یہاں موجود ہر فرد اور خود پر 10 ڈالر جرمانہ عائد کرتا ہوں دس ڈالر ادا کئے بغیر کوئی شخص کورٹ سے باہر نہیں جا سکتا یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے 10 ڈالر نکال کر میز پر رکھ دیئے۔

جج صاحب نے کہا کہ اس کے علاوہ میں اسٹور انتظامیہ پر 1000 ڈالر جرمانہ کرتا ہوں کہ اس نے ایک بھوکے بچے سے غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کیا اگر 24 گھنٹے میں جرمانہ جمع نہ کرایا گیا تو کورٹ اسٹور سیل کرنے کا حکم دے گی فیصلے کے آخری ریمارک یہ تھے اسٹور انتظامیہ اور حاضرین پر جرمانے کی رقم لڑکے کو ادا کرتے ہوئے عدالت اس سے معافی طلب کرتی ہے فیصلہ سننے کے بعد حاضرین تو اشک بار تھے ہی اس لڑکے کی تو گویا ہچکیاں بندھ گئی تھیں اور وہ بار بار جج کو دیکھ رہا تھا سچنے کی بات ہے کہ کفر کے معاشرے ایسے ہی نہیں پھل پھول رہے اپنے شہریوں کو انصاف ہی نہیں عدل بھی فراہم کرتے ہیں کبھی ہمارا معاشرہ بھی اسی طرح ہوا کرتا تھا مگر نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ہماری سبھی اداروں کو ہم جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں اسے ہی کاٹ رہے اپنے ہاتھوں اپنا آشیانہ تباہ کرنے میں مصروف ہیں خدارا واپس آجائیں ابھی بھی ہم واپس مڑ سکتے ہیں وقت بھی ہے اور موقعہ بھی۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر