افسوس کہ ہم بے بس ہیں

Inflation

Inflation

پاکستان کو حالیہ دور میں کافی مسائل کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، بے روزگاری، مہنگائی، سیاسی بحران اور ملک میں امن و امان کی خراب صورت حال اہم ترین ہیں، کچھ ماہ پہلے ہی حکومت تبدیل ہوئی ہے مگر ابھی تک کو ئی خاطر خواہ فرق نظر نہیں آیا نہ اس حکومت او رنہ ہی پچھلی حکومت میں کیونکہ کوئی بھی حکومت ان بنیادی مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دی گئی۔ حکومت اپنے سیاسی مفادات کے پیچھے بھاگنے میں مصروف ہے جبکہ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے کی طرف جا رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں لاقانونیت اور دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانا حالیہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس پر ابھی کوئی خاطر خواہ کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیئے جائیں نہ کہ صرف پریس کانفرنسوں اور بڑکوں سے وقت ضائع کیا جائے۔

اس ضمن میں اگر دیکھا جائے تو ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی بھی کافی ناقص ہے مگر سب سے زیادہ ذمہ داری موجودہ حکومت پر آتی ہے جس نے اداروں کو مکمل اختیارات فراہم نہیںکیئے ۔جس کی تازہ مثال اسلام آباد میں شاہراہ دستور کے قریب پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں صرف ایک شخص نے اسلحہ کی نوک پر پولیس کو پانچ گھنٹوں تک تگنی کا ناچ نچایا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس شخص کا مقصد کیا ہے اور کیوں یہ شخص بار بار فائرنگ کر کے پولیس والوں کو نزدیک نہ آنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اس سارے عمل کے دوران سکندر نامی شحص اور اس کی بیوی کنول دونوں فون پر کسی سے رابطے میں بھی رہے۔ اس دوران وہاں اردگرد تماشائی ہزاروں کی تعداد میں چاروں اطراف کھڑے ہو رہے تھے جیسے کوئی سرکس لگی ہوئی ہے۔

Terrorists

Terrorists

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ا گر خدا نخواستہ لوگوں کے اس ہجوم میں کوئی دہشت گرد گھس کر اپنے آپ کو خود کش دھماکے سے اڑا دیتا تو اس کا ذمہ دار کون تھا؟یہ سوال اس وقت کسی کے دماغ میں بھی نہیں آیا کہ ہو سکتا ہے کہ صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہو اور لوگوں کا ہجوم زیادہ ہوتے ہی کوئی دہشت گرد خود کش دھماکہ کر دے تو کتنا زیادہ نقصان ہو گا۔ اسی طرح متعلقہ اداروں کو چاہیے تھا کہ اُس علاقہ میں جہاں یہ ڈرامہ ہو رہا تھا وہاں موبائل سگنل بند کر دیئے جاتے کیونکہ ریمورٹ ڈیوائس کے ذریعے ہونے والے دھماکے کو موبائل سگنل بند کر کے روکا جا سکے۔ اس ضمن میں پی ٹی اے کو مکمل اختیار دیئے جائیں تا کہ ایسے حالات میں پی ٹی اے جلد ہی ان علاقوں میں موبائل سگنل کو بلاک کر دے جہاں دہشت گردی کا خطرہ ہو۔ اسی طرح اور بھی کافی مقامات ہیں جہاں دہشت گردی کے خطرات کافی زیادہ ہوتے ہیں جیسے مسجدوں اور امام بارگاہوں میں اور ٹول پلازوں کے قریب جہاں ہزروں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔

پی ٹی اے کو چاہیے کہ پاکستان کی تمام مسجدوں اور امام بارگاہوں کے لیے ایک ایک موبائل سگنل جیمر جاری کرے جو نماز کو اوقات میں آن کر دئے جائیں اور اسی طرح ٹول پلازوں کے پاس بھی جیمر لگا ہونا چاہیے کیونکہ وہاں اگر ایک دھماکہ ہوتا ہے تو بہت بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصان کا خطرہ ہے۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ میں سب سے زیادہ مسجدوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صرف 2012 میں پورے پاکستان میں دہشت گردی کے 1577 واقعات رونما ہوئے جن میں 2050 لوگوں کو زندگی سے ہاتھا دھونا پڑے اور ان واقعات میں 3822 افراد زخمی ہوئے جبکہ یکم جنوری 2013 سے لے کر 10 اگست 2013 تک یعنی سات ماہ اور دس دنوں میں 2603 لوگ دہشت گردی کا نشانہ بنے اور ان واقعات میں 2480 سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔

شاید مشرف کے دور میں اتنا ظلم نہیں تھا جو اب ہو رہا ہے ور کوئی ان حالات کو کنٹرول کرنے والا نہیں، حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھے کسی معجزے کے انتظار میں ہے یا اُن کا خیال ہے کہ چراغ رگڑنے سے کوئی جن آجائے گاجو ان تمام مسائل کو حل کر دے گا کیونکہ ہم تو ان مسائل کے آگے بے بس ہو چکے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جب کراچی کی سڑکوں سے کوئی تشدد ذدہ لاش نہ ملتی ہے آئے دن یہ معاشرہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے مگر افسوس کہ یوں لگتا ہے جیسے حکومت ان دہشت گردوں سے نبٹنا ہی نہیں چاہتی۔ جبھی تو کسی دہشت گرد کو آج تک تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا، جبکہ دہشت گرد قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے خطرناک ساتھیوں کو بہت آرام سے چھڑا لے جاتے ہے یوں لگتا ہے ہم سب اس دہشت گردی کے سامنے بے بس ہیں یا بے بس کر دیئے گئے ہیں۔

Mohammad Furqan

Mohammad Furqan

تحریر : محمد فرقان