انجام گلستاں کیا ہو گا

Injam Gulistaan Kia Ho Ga

Injam Gulistaan Kia Ho Ga

تحریر : شاہ بانو میر

کل جن کے قدموں کی دھمک سے دشمن کے دل کانپ اٹھتے تھے
آج ساڑھے تین میٹر کے دوپٹے گلے میں فخر سے لٹکائے مٹکتے ہوئے نازک اندام حسینہ دکھائی دیتے ہیں
مومن سے حسینہ کا سفر گلوبل ویلج سے ہنستے کھیلتے طے ہو گیا
سادہ ذہن معصوم اس قوم کو پہلے بھارت نے دور درشن کیندر سے اپنی جانب مائل کیا
جب گھر سے سنسار خواب سپنے پھیرے ورت زبان زد عام ہوا
تو
اگلا کامیاب تجربہ ڈش کلچر پھر کیبل سے کیا
اذانیں مسجدوں سے پکارتی رہیں
حی الافلاح
کان سنتے رہے بہرے بنتے گئے
اللہ کی مہریں دلوں پر لگتی گئیں
پردے آنکھوں پر پڑتے گئے
یوں ہم
سادگی کو چھوڑ کر جدت پسند بن گئے
والدین فرسودہ ان کے نظریات احمقانہ ہوئے
ادب احترام دوپٹہ غائب ہوتے ہی رخصت ہوا
گلوبل ویلج کا خاکہ
پیش کرنے والے جانتے تھے کہ
کیسے بغیر تیر تلوار چلائے ذہنوں کو اسلاف سے دور کر سکتے ہیں
سوشل میڈیا نے آتے ہی ہر شیخ چلی کو نئی جاب دے دی
ہر نااہل کو اعلیٰ اہلیت دے دی
سوشل میڈیا پر کامیابی کی ہر شرط اسلام سے متصادم تھی
صبر کی بجائے شور
اخلاص کی بجائے منافقت
سچ پر تکیہ کرنے کی بجائے جھوٹ
ہمدردی کی بجائے خوشی غم میں پوسٹس کی بھرمار
بے شمار لوگوں کو ایڈ کریں پھر اپنی تصاویر دن رات پوسٹ کریں
آپ مرد ہیں یا عورت کوئی ایشو نہیں
راتوں رات آپ کا پیج آپ کو پسندیدگی کی بلندی پر لے جائے گا
لیجیے ہر ناکارہ انسان کار آمد بنا دیا گیا
ملک کا ہر شعبہ آپ کی مٹھی میں ہے
اب جیسے چاہیں کریں
آپکی کامیابی کا در کھل گیا
خاندان رشتے دوست احباب سب یہاں سے ملیں گے
دانت پیستے ہوئے ہر منافق ایک دوسرے کی نئی تصویر دیکھ کر زیر لب اسے صلواتیں سناتے ہوئے لائک کا بٹن پریس کرے گا
مجبوری ہے کہ
اپنی نئی پک پر بھی تو لائک چاہیے
سیاست ہے تو اوپر جاتے ہوئے کل کے ساتھیوں کو بلاک کرتے جائیں
کیونکہ
وہ سادہ دماغ یہ منافقت نہیں سیکھ سکا اس لئے ابھی تک کارکن ہی ہے
دوسری طرف
کامیاب منافق کو اس کے جھوٹ اس کو کو کہاں سے کہاں پہنچا گئے
مغربی رسوم ویلنٹائن ہو یا ھالوین یا بلیک فرائیڈے یا پھر کرسمس
کبھی ایسے نہیں دیکھے تھے
جتنے سوشل میڈیا کے بعد دیکھے
دین کی قید حد سے آزاد دنیا بھر میں موجود یہ لوگ ایک خاندان ہیں
ظلم یہ ہے مغربی ماحول میں پلتے یہ لوگ جدت پسندی کے نام پر
بین الاقوامی اداروں سے وابستہ ہیں
کروڑوں اربوں کما رہے ہیں
سادہ لوح قوم ان کےپیچھے چلتے ہوئے ثابت کر رہی ہے کہ
اپنا دینی ماضی نہیں جانتے
طاقتور تاریخ کا علم ہوتا تو
ان کمزور دینی گمشدگان کو ہدایت کا راستہ دکھاتے
نہ کہ
لرزیدہ خشک پتے کی طرح ہر بے دین شورش میں بہتے چلے جاتے
ملک میں نوجوانوں کے کمزور اذھان سے ایسا گروہ قائم کر دیا گیا
جو نماز قائم کرنا نہیں جانتا تھا
مگر
غیر اسلامی ظلم کے ظابطے بزور طاقت قائم کروانا جانتے ہیں
ہر حد قید کو توڑتا ہوا مغربی طرز کی سیاست کو فروغ دے کر نئی تاریخ رقم کر بیٹھاہے
ہم نےاس بار سیاست اپنے ملک میں سوشل میڈیا پر ہوتی دیکھی
روایتی سیاست سے مختلف
ہمدردی نرمی سے محروم سیاست
جو اغیار کو کہتی ہے
آؤ بات سے مسائل حل کریں
اور
ملک کے مخالفین سے اتنی خوفزدہ
کہ
انہیں تختہ دار تک پہنچانے کا تہیہ صرف کمزور سیاست کی وجہ سے کر چکی
خوف خدا سے عاری نمائشی زندگی صرف تاریخوں سے تصویروں سے زندہ ہے

زندگی میں جب کرنے کو کچھ نہ ہو
سوشل میڈیا کے بے جان نعرے ہوں تو
قوم کاہل اور ذہنی معذور بنا دی جاتی ہے
تن آسانی شیوہ بن جاتا ہے
اس قوم اور امت کے جوان اللہ کے لیے یا
کلمہ حق کے لیے زرہ بکتر پہن کر میدان جنگ میں دشمن کو للکار تے نہیں
بلکہ
کل کے میدان جنگ کے جوان اور گھوڑے
گھنگرو باندھ کر آج شادیوں پر رقص کرتے ہیں
کمزور ریاستی نظام میں ہیجڑانہ غیر اسلامی انداز مقبول عام ہے
ہر ادارہ ذہانت سے محروم سیاسی غلامی کا مظہر
سیاسی خداوں کی پرستش رواج پا رہی ہے
حاکم وقت کی پکڑ کتنی سخت ہے
قرآن کھولیں تو رونگٹے کھڑے ہوں
اور
ہاتھ ظلم سے خود بخود رک جائیں
عقل نہ ہوئے تے موجاں ای موجاں
کا منظر آج کے حکمران دکھا رہے ہیں
ناکام نظام سیاست کے ثمرات مستقبل میں پھر عوام بھگتے گی
کیونکہ
دوہرا معیار سامنے ہے
جس کا انجام تباہی ہے
اندرون ملک طاقتور سیاسی مخالفین کو جڑ سے ختم کرنے کا اولین ھدف طے ہے
ہم پاکستان کو نیے دور میں کامیاب دیکھنے کی شرط پوری ہوتے دیکھ رہے ہیں
جب ریاست ماں کے جیسی نہیں ہے
اداروں کا باہمی گٹھ جوڑ اس پر متفق ہے
مااضی کے ناکام اسباق پھر آزمائے جا رہے ہیں تو سوائے اللہ سے انصاف کی امید سے اور کمزور عوام کیا کر سکتی ہے
ملک میں میں ریاست مدینہ بغیر اسلام کے نافذ کرنے کی مکمل تیاری ہو چکی ہے
منتہائے نظر سرمایہ اکٹھا کرنا ترقی یافتہ منصوبوں کا اجراء ہے
پاکستان 5 سالوں میں عروج حاصل کرے گا مگر کن شرائط پر
اس کی تفصیلات موجودہ مغربی مائینڈ سیٹ نہیں دے گا
جواب وقت دے گا
جب ملک بھر میں نعرہ ریاست مدینہ کا گونجے گا
عملی نظام غیر اسلامی ہوگا
جس جماعت نے ملک کے غیور مومن کو عورت کی آڑ لے کر ہر شعبے میں
مرد کو کمزور اور عورت کو کامیاب ظاہر کیا ہو
وہ کتنی اسلام پسند غیور سوچ رکھتی ہے
آپ خود سوچ لیں
سوچ کا یہ دوغلا پن سیاست سے نکل کر ملک کے طول و ارض میں پھیلایا گیا
نتیجہ
سیاست کمزور ہو کر کارکردگی پر نہیں بد لحاظی غنڈہ گردی پر آگئی
پہلا موقعہ ہے کہ عوام کی ذہن سازی کرنے والے سر پر ہاتھ رکھ کر رو رہے ہیں
کہ
کل چور تھے تو
آج ڈاکو راج ہے
جبر بھی ہے مہنگائی کا مسلسل ظلم بھی ہے
لب کشائی کی اجازت نہیں
زبانیں پر جبری قفل ہیں
ناکام مہنگے وزیر کارکردگی زیرو
جو منتظر ہیں
کشکول بیرونی امداد سے بھرے تو کوئی کارنامہ دکھائیں
ایسی حکومت ہے جس کی زباں اور الفاظ مستعار لیے ہوئے ہیں
سیاسی تیاری
جب خیالی سلطنت سوشل میڈیا سے زبانی کلامی ہو گی
تو
عملی سیاست میں ناکامی تو ہو گی
ہر دانشور کل کا حمایتی اس بے تکے نظام سے پریشان یہی کہ رہا ہے
کہ
انجام گلستاں کیا ہو گا؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر