انداز سخن آزمائو مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظوں کی تجارت مت کرنا

Journalism

Journalism

تحریر: نمرہ ملک
تین مئی کو صحافت کا عالمی دن منایا گیا۔یہ دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ صحافت کی حدود و قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے ،اسکی روایات کا احترام کیا جائے اور اسکی پاسداری کرنے والوں کو سلام پیش جائے۔اسی سلسلے میں تحصیل پریس کلب تلہ گنگ کا اک اجلاس جھاٹلہ ہاوس تلہ گنگ میں منعقد ہوا۔اس اہم اجلاس میں صحافت میں قربانیاں دینے والوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔نئے لکھاریوں اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کرنے ولوں کو کلب میں خوش آمدید کہا گیا۔تحصیل پریس کلب کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ،انہیں اک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے تا کہ وہ اپنی چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ معاشرے میں ہر جگہ پستا یہ طبقہ بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے۔بلا شبہ یہ صحافت کی تاریخ میں اور بالخصوص تلہ گنگ ،ضلع چکوال کی تاریخ میں اک نئی داستان کا آغاز ہے۔اگرہم پاکستان میں صحافت کا جائزہ لیں تو صحافت کی حدود تو لا محدود مگر اس کی روائتوں کی پاسداری کرنے والے کم کم نظر آئیں گے ۔اک زہریلی سوچ جو صحافت کی رگوں کو نیلا کرتی نظر آتی ہے وہ ہے زرد صحافت۔بظاہر ہاتھ پائوں بچا کے کام کرنا مگر اندرون خانے زرد صحافت انسانیت کیلئے زہر قاتل ہے۔زرد صحافت کیا ہے؟ اسکی تشریح آسان الفاظ میں یوں کی جا سکتی ہے کہ اک ایسا گند جس میں سچ کو بیچ کھایا جاتا ہو۔یا پھر یہ کہہ لیں کہ جہاں مفاد پرستی کے سانپ حقیقت کے بچے کھا جاتے ہیں ۔ہر وہ شخص جو اپنے زرا سے مفاد کیلئے کسی کی ٹوپی اچھال دے،ہماری نظر میں زرد صحافی ہے۔اس کے بر عکس ہر وہ شخص جو سچ کی راہ میں اپنوں کی مخالفت مول لے لے،لوگوں کی نظروں میں معتوب ٹھہرایا جائے مگر اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہو۔بھلے اس پہ کسی کے حق میں لکھنے پہ شاہ کی وفاداری کا الزام ہی کیوں نہ آئے۔ہم اسے سچا صحافی ہی مانیں گے۔

Allah

Allah

اللہ کریم نے ہمارے ہاتھ میں قلم کی طاقت تھما تو دی ہے مگر اپنے لوح ،قلم،کرسی کا حوالہ دے کے تنبیہ بھی کی ہے کہ تقدیر بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اور جو کچھ ہم لکھتے ہیں وہ ہمارے نامہ اعمال میں میں بھی درج ہوتا ہے جب کہ اس کی بادشاہی کو بھی زوال نہیں۔اسکی کن کی طاقت ایسی ہے جو ہمارے قلم کی طرح کبھی خشک نہیں ہوسکتی۔اس نے زمیں پہ اپنے نائب کے ہاتھ میں قلم تھما کہ یہ بھی باور کرا دیا کہ یہ ہتھیار صرف اپنی اصل اور جائز جگہ پہ ہی استعمال ہونا چاہئے۔کچھ لوگ اپنے ہاتھ میں قلم کی طاقت پہ خود کو با اختیار سمجھتے ہیں ۔کیوں کہ ان کے خیال میں میڈیا کسی بھی دریا کا رخ موڑ سکتا ہے ۔مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ تاریخ کا قلم کسی غلام اور بیمار زہن کو معاف نہیں کرتا۔صحافت اک مقدس پیشہ ہے ۔یہ بھی اک تبلیغ کا موئژ زریعہ ہے۔

اس بھی معاشرتی برایئوں کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ اچھایئوں کا درس دیا جا سکتا ہے۔اس میں بھی درد بانٹے جاتے ہیں ،اس میں بھی آنسو پونچھے جاتے ہیں ۔اور اس میں بھی جبر کے خلاف جنگ کی جاتی ہے۔اک سچا صحافی کبھی بھی کسی مظلوم کی آنکھ میں آنسو لانے کا سبب نہیں بنتا ۔بلکہ ہمیشہ وقت کے فرعونوں کے سامنے اپنے قلم کو عصائے موسیٰ بنا کے کھڑا ہوتا ہے۔اس کیلئے کسی کے جاہ و جلال یا حشمت کی اہمیت نہیں ہوتی۔وہ اپنی درویشی میں خوش اور مست رہتا ہے۔صحافیوں کی پاکستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم تین قسمیں ہیں۔اول وہ لوگ ہیں جوصحافت کے نام پہ سیاست کرتے ہیں ،بلیک میلر ہیں اور مزے کی بات یہ کہ لوگوں کو ان کے لکھے کا انتظار بھی رہتا ہے۔اگرچہ ان لوگوں کا مقصد بظاہر سچ کو سامنے لانا ہوتا ہے مگر در پردہ کسی نہ کسی کے اشارے پہ چل رہے ہوتے ہیں،کسی سیاسی پارٹی کو اپنی وفاداریاں بیچتے ہیں اور پھر کھایا پیا حلال کرتے ہیں

Platform

Platform

دوسرے نمبر پہ وہ لوگ ہیں جو سچ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں ،حق انکی گھٹی میں ملا ہوتا ہے۔پہلی قسم کے لوگوں کی طرح انکی ایوانوں تک رسائی کم ہوتی ہے اور اگر ہو جائے تو یہ اپنے قلم کو تلوار جیسا تیز بنا لیتے ہیں ۔یہ پیسے کیلئے بھی صحافت کا ڈرامہ نہیں رچاتے ۔اس لیئے ان کو اکثر جیلوں کی سیر بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔بڑے لوگوں کے سیاہ کارناموں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کبھی کبھی ان کو زندگی سے بھی محروم کر دیتی ہے۔ساری ذندگی اپنے سچ کو سینے لگانے والے آخر کار تاریخ کے سچے کاغذوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔جب کہ ان کہ باقی ماندہ اہل و عیال کسمپرسی کی ذندگی گزارتے ،ان کے سچ سے منہ چھپاتے پھرتے دال روٹی کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔درحقیقت قلم انہی لوگوں پہ فخر کرتا ہے ۔تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ٹیلنٹڈ ہیں مگر ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہیں ہوتے۔اور موروثی صحافت والے ایسے لوگوں کی رہنمائی کرنا شان خلافی سمجھتے ہیں۔خود کو بڑے پائے کے صحافی سمجھتے ہوئے ایسے گوہروں کو حقارت سے دیکھتے اوراپنے پریس کلب، جن میں خود انکی رکنیت مشکوک ہوتی ہے، کے نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔

ان پہ پانچ سات سال کے تجربے کی شرط رکھ کر نئے لکھاری کہہ کر ایسے معصوم لکھاریوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔بھلے خود انہیں سیدھی خبر تک بنانے کا پتہ نہیں ہوتا۔اس طرح اچھے خاصے ہیرے بھی مٹی میں رل کے رہ جاتے ہیں۔کیونکہ ان کے پاس موقع بھی نہیں اور ان کو پرکھنے والی آنکھ بھی نہیں ملتی کہ کو ئی ان کی صلاحیتوں کو پالش کر سکے۔ اس سیٹ اپ سے وہ علاقے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں محدود ماحول ہو۔ چھوٹے علاقوں میں محدود زہنیت بھی کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی ہے ۔انہی میں سے اک علاقہ ہمارا پیارا تلہ گنگ بھی ہے۔ہر اچھے محب وطن کی طرح ہمیں بھی اس کے خاروں سے بہت پیار ہے۔مگر تعصب کی فضا اور ”کوئی مجھ سے آگے نہ نکل جائے”والی پالیسی ہمیشہ دکھ دیتی ہے۔

اس طرح کا کوئی بندہ دیکھ کے گھنٹوں سلگنا اور کڑھنا بھی ہمارے پسندیدہ مشاغل میں شامل ہے۔مگر صد شکر کہ دہائی سے ذیادہ صحافتی سفر میں پہلی بار تلہ گنگ میں ایسا بھی دیکھنے کو ملا کہ جس میں نئے لکھاریوں کو خصوصی توجہ کا پیکج ملا ہے۔تحصیل پریس کلب کا یہ اعزاز بہت منفرد ہے کہ اس نے نہ صرف نئے لوگوں کی رہنمائی کا بیڑا اٹھایا،انہیں اک پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ خواتین کو بھی نمائندگی اور عہدے دئیے۔اس سے بہت سے پرانے لوگوں کے ،جو خود کو صحافت میں عقل کل سمجھتے تھے ،بھی قبلے درست ہو گئے۔پنڈی ڈویژن میںدوسرا پریس کلب یہ ہے کہ جس نے صحافت کا علمی دن فخریہ منایا اور نئے لوگوں سے محبت کا اظہار کیا۔پاکستان میں صحافت نے بڑے بڑے برج دیکھے اور بڑے بڑے ستونوں کی حکمرانی بھی دیکھی ۔مگر ان چھوٹی چھوٹی تیلیوں کی حوصلہ افزائی ضرور ہونی چاہئے جن کی رگوں میں کئی علمی چنگاریوں کے طوفان ابل رہے ہیں۔مگر باہر آنے کیلئے اک شعلہ دکھانا ضروری ہے۔صحافت کا عالمی دن نئے اور پرانے لوگوں سے یہ ہی اپیل کرتا ہوا گزر جاتا ہے جو ہم نے اپنے اک شعر میں سمو دیا ہے کہ

انداز سخن آزمائو مگر ۔۔۔
لفظوں کی تجارت مت کرنا۔۔۔
تحریر: نمرہ ملک