سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف ممکنہ مظاہرے، فوج تعینات

Sudan Protests

Sudan Protests

سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف ریلیوں اور مظاہروں کے تناظر میں فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ اقتدار پر قابض فوج نے دو روز قبل ملک میں حکمران کونسل کا اعلان کیا تھا۔

فوج کی جانب سے حکمران کونسل کے قيام میں ملک کے اہم سویلین سیاسی بلاک کو نظرانداز کیا گیا تھا، جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہروں کی کالز سامنے آئی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان مظاہروں کی روک تھام کے لیے تمام اہم مقامات اور پلوں پر فوج تعینات کر دی گئی ہے۔

تین ہفتے قبل فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے حکومت کو برطرف کرتے ہوئے کئی اہم سویلین رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا جب کہ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی تھی۔ 25 اکتوبر کو فوجی بغاوت کی بین الاقوامی برداری کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی، جب کہ سوڈان کے اندر بھی تب سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں جمہوری ٹرانزیشن بحال کی جائے۔

عوام کی یہ امید، کہ فوج جنرل عبدالفتاح البرہان کی حمایت سے ہاتھ کھینچے گی، اس وقت بجھ گئی جب جمعرات کے روز جنرل البرہان نے حکمران کونسل کا اعلان کیا، جس کی سربراہی انہوں نے اپنے ہاتھ لی۔ اس نئی پیش رفت پر مغربی ممالک کی جانب سے سخت نکتہ چینی کی گئی ہے، جب کہ سوڈان میں مظاہروں کی نئی لہر کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز تازہ مظاہروں کے خدشے کے تناظر میں پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کی بہت بڑی تعداد دارالحکومت خرطوم میں تعینات کی گئی ہے، جب کہ دارالحکومت کو دیگر شہروں سے ملانے والے روستوں اور پلوں پر بھی بھاری نفری تعینات ہے۔

بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت خرطوم میں قائم فوجی ہیڈکوارٹر کی جانب جانے والے راستوں کی بھی ناکہ بندی کی گئی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کہ سن 2019 میں فوجی ہیڈکوارٹر کے قریب ہی ایک بہت بڑا عوامی دھرنا دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سوڈان پر برسوں مطلق العنان حکمران رہنے والے صدر عمرالبشیر کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

اقوام متحدہ نے سوڈانی فوج سے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے اجتناب کرے۔ سوڈان کے لیے خصوصی عالمی مندوب فولکر پیرتھیز نے کہا، ”سوڈان میں مظاہروں کے تناظر میں میں سوڈانی سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ طاقت کے استعمال سے تمام ممکنہ حد تک اجتناب برتیں اور لوگوں کے اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی کے حق کا احترام کریں۔‘‘