“مالک کی صدا”

Bulls

Bulls

تحریر:ایم اے تبسم

بیل ایک جانور ہے، عقل و شعور سے نابلد اسے ک ولہو پہ باندھ دیں تووہ آنکھوں پہ پٹی بندھے ہونے کے باوجود راہٹ چلانے کے لئے دائرے میں گھومتا رہتا ہے، اپنے مدار سے ہٹتا نہیں ،وہ جگہ تو محدود ہوتی ہے،مگر وہ مسلسل گھومتا ہے، اس کے قدم اپنے مدار سے ڈگمگانے لگیں تومالک کی طرف سے ایک صدا پہ چوکنا ہوجاتا ہے، مگر انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اپنی حدنہیں پہچان سکا،جانورجب کوئی ایسی ویسی حرکت کرتا ہے تومالک کی ایک صدا اسے مجبور کر دیتی ہے،اوروہ بازآجاتا ہے، مگرانسان ایسا بھٹکا ہے کہ باربار صدادینے پہ بھی نہیں پلٹا ،سرکشی پہ باضد ہے،کتا جب دور جانے لگے اور مالک اسے صدا دے تووہ بھاگ کے مالک کے پائوں سے لپٹتا ہے اسکے تلوے چاٹتا ہے

ایک جانور کوبھی مالک کی پہچان ہے وہ اسکا وفادار ہے مگر انسان عقل وشعور ہونے کے باوجود اپنے اصلی مالک کوبھلا بیٹھا ہے ،اس سے بے وفائی کررہا ہے،اس کے باربار پکارنے پہ بھی پلٹنا اسے گوارا نہیں،اصلی مالک کون ہے ؟،(اللہ رب العزت )جوتمام جہانوں کا رب ہے جو خالق کائنات ہے،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ،وہ اللہ جو مالک بھی ہے ،خالق بھی ہے،رحمن بھی ہے،اور رحیم بھی ہے،ایک ماں جو نو ماہ اپنے پیٹ میں ایک بچہ کو رکھتی ہے پھرموت وحیات کی کشمکش سے گزرنے کے بعد اسے جنم دیتی ہے،اور پھر جنم سے لے کر موت کی وادی میں اترجانے کے بعد تک بھی وہ اپنے بچے کے لئے شفیق ہوتی ہے،بچے کو ٹھوکر لگے ،گرجائے،یا کوئی تکلیف ہوتو ما ں بلبلا اٹھتی ہے

Allah

Allah

جب بچہ ڈگمگانے لگے توماں بڑھ کر تھام لیتی ہے،ماں کی سب محبتیں ،سب چاہتیں اللہ رب العزت کی چاہت کا ایک روپ ہیں،اللہ تعالیٰ ماں کی محبت سے سترگنا ذیادہ محبت کرتا ہے،اور اس کا بندہ ڈگمگانے لگے تووہ اسے راہ ہدائت دکھاتا ہے،مگر بندہ اس رب کا شکر ادا نہیں کرتا اور اس کی پکار نہیں سنتا اور اس کی پکارکا جواب بھی نہیں دیتا،طلوع سحر سے رات کی تاریکی چھا جانے تک دنیا کے کونے کونے سے صدا بلندہوتی ہے،

اور یہ صدا دن میں پانچ مرتبہ انسان سنتا ہے،مگر اس کی اس صدا پہ غورنہیں کرتا ،اس کا جواب نہیں دیتا ،اور پلٹتا نہیں ہے،انسان اپنے مالک کا کس قدر نافرمان ہے،کہ مالک اسے فلاح کی طرف بلاتا ہے،کامیابی کی طرف بلاتا ہے،مگر انسان اس پر غور کرتا ہی نہیں ،اپنے مالک کی صدا سنتا ہی نہیں،اللہ تعالیٰ انسان کو باربار موقع دیتا ہے،تب ہی تو اللہ تعالی ٰ کرہ عرض پر چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ اپنے درپہ حاضری کا موقع دیتا ہے،مگر نادان انسان کہتا ہے ،بہت مصروف تھا اس لئے نمازقضا ہوگئی ہے

نمازتوادا کی نہیں ،اذان غور سے سننے کی فرصت نہیں،جواب دینا تو بہت دور کی بات ہے،آج ہم بڑے فخر کے طور پر دوسروں کے سامنے اپنے معصوم بچے سے کہتے ہیں،کہ ہمیں انگلش میں (POEM)سنائیں اور جب بچہ لہک لہک کر سناتا ہے تو اسکو فخر سے داد دیتے ہیں،ہم نے اپنے بچوں کو باقی توسب کچھ سکھا دیا ہے ،مگر اسے یہ بتانا بھول گئے کہ اس کا مالک کون ہے،اور اس کا کیا حکم ہے،کم از کم بچے کو سب سے پہلے اسلام کی بنیادی چیزیں سکھانا ہمارا فرض ہے،اس کے بعد دنیاوی تعلیم دینا چاہیئے،حضرت بلال جب اذان دیتے تھے

تو جن وانس ٹھہر جاتے تھے،وہ حضرت بلال جن کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ چلتے زمین پرتھے اور ان کے قدموں کی آہٹ عرش پہ سنائی دیتی تھی،وہ جب اذان دیتے توچرندپرند اڑنا بھول جاتے اور اذان سنتے تھے،مگر انسان آج کل کتنا غافل ہوچکا ہے،کہ ہر طرف اذان کی صدا بلند ہوتی ہے مگر انسان ٹس سے مس نہیں ہوتا اور اپنی کاروباری زندگی میں مگن ہوجاتا ہے،اپنے مالک حقیقی کی صدا سننے کی فرصت نہیں،ارے اے بدبخت انسان توکچھ بھی نہ تھا اس ذات نے تجھے گندے خون سے وجود بخشا ،جب تجھے دنیا میں بھیجا گیا توہر مراحل سے گزارتے ہوئے تیری ضرورت کے مطابق تجھے بن مانگے سب کچھ دیا،وہ اللہ جو تجھ سے سترمائوں سے زیادہ پیارکرتا ہے

وہ اللہ جوتیری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے،تیری ناشکریوں کے باوجود بھی وہ تجھے سب کچھ دے رہا ہے،اس کی ایک ایک نعمت پر ذرا غورتو کر ،کہ اگر وہ اک نعمت تم سے چھین لے تو ہے کوئی دنیا کی طاقت جو واپس دلوا سکے،اے انسان اپنے اصلی مالک کو پہچان اور اس کے ہرحکم پہ قربان ہوجا،اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو،آمین ثم آمین۔

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر:ایم اے تبسم
موبائل:0300-4709102
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102