طالبان وعدوں کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں، اقوام متحدہ

Human Rights Organization Head

Human Rights Organization Head

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے افغانستان میں غلبہ حاصل کرنے والے طالبان پر تنقید کی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ کے مطابق ان کی دی گئی کمٹ منٹس زمینی حقائق کے مطابق برقرار نہیں رہی ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوج اور مغربی دفاعی اتحادی کے رکن ممالک، جو افغان جنگ میں امریکی اتحادی تھے، کے مکمل انخلا کے بعد سارے ملک پر طالبان نے اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔ کابل میں سابقہ عسکریت پسندوں نے عبوری حکومت کے قیام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

اس نئی عبوری حکومت میں زیادہ پشتون نسل کے سرکردہ افراد شامل ہیں اور دوسری نسلوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اسی طرح کوئی ایک خاتون بھی حکومت میں شامل نہیں کی گئی۔ اس صورت حال پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ مِچل باچیلیٹ نے کڑی نکتہ چینی کی ہے۔

مِچل باچیلیٹ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ابھی تک طالبان خواتین اور مقامی نسلی گروپوں کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صورت حال افغانستان میں ایک نئے خطرناک دور کا آغاز دکھائی دیتی ہے۔ اس مناسبت سے مذہبی برادریوں، مختلف علاقائی نسلی گروپوں اور خواتین کو اپنے حقوق کی پامالی کی تشویش لاحق ہو گئی ہے۔

مِچل باچیلیٹ نے اس بیان میں واضح کیا کہ ابتدا میں طالبان کی جانب سے مذہبی برادریوں، مختلف علاقائی نسلی گروپوں اور خواتین کے حقوق کے احترام کی بات کی گئی تھی لیکن اب ان کے قول و فعل میں تضاد نمودار ہونا شروع ہو گیا ہے۔

کابل شہر میں مسلح طالبان جنگ جوؤں کو کھلے عام سڑکوں پر گھومتے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام تر یقین دہانیوں کے صرف تین ہی ہفتوں کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ خواتین کے معاملے میں کوئی مناسب پیش رفت ظاہر ہونے کیبجائے انہیں عوامی مقامات سے بتدریج علیحدہ کیا جا رہا ہے۔

باچیلیٹ کے مطابق اعلان شدہ نئی عبوری حکومت میں زیادہ افراد پشتون ہیں اور مختلف نسلوں کو مناسب نمائنگی نہیں دی گئی ہے جب کہ کوئی خاتون بھی اس حکومتی عمل میں شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ حالات افسوس ناک اور باعثِ تشویش ہیں۔

باچیلیٹ کے مطابق طالبان نے جو وعدے کیے تھے اب انہوں نے انہیں توڑنا شروع کر دیا ہے اور سابقہ دورِ حکومت کے سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کے کارکنوں کو دی گئی عام معافی سے بھی وہ پیچھے ہٹ چکے ہیں۔

باچیلیٹ کے مطابق ان ملازمین کے گھروں کی تلاشیاں شروع کر دی گئی ہیں جو قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ گھر گھر تلاشی ان کی بھی کی جا رہی ہے جنہوں نے امریکی فوج اور غیر ملکی سکیورٹی کمپنیوں کو معمولی سا تعاون بھی فراہم کیا تھا۔

مِچل باچیلیٹ نے کونسل کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ ان کے دفتر کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ طالبان نے سابقہ افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے کئی ملازمین کو تلاش کر کے ہلاک کر دیا ہے۔

اس بیان میں انسانی حقوق کی کونسل کی سربراہ نے بتایا کہ ان افراد کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے جنہوں نے یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے غیر ملکی افواج یا اداروں کی معاونت یا نوکری کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بعض اہلکاروں کو رہا کیا گیا اور بعض کو ہلاک بھی کر دیا گیا۔ باچیلیٹ نے ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کو پریشان کن قرار دیا ہے۔