چراغ فکر جلا دیا (استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ) (پارٹ ون )

Farhat Hashmi

Farhat Hashmi

تحریر : شاہ بانو میر

میری رہنما تیرا شکریہ کروں کس زباں سے ادا
میری زندگی کی اندھیری شب میں چراغِ فکر جلا دیا

استاد !!
سحر انگیز حرف جو مجھے
ہمیشہ ہی کہیں دور پرانے وقتوں میں لے جاتا ہے
دھول میں اٹے ہوئے پسینے سے شرابور تھکے ماندے
صحرا کی خاک میں گرد آلود مٹی مٹی وجود
کبھی صحرائی قذاقوں کا خوف تو کبھی درندوں کا
کبھی قدرتی آفتوں کی صورت لق و دق صحرا ویراں بے آب و گیاں
قلیل زاد راہ اور محدود سی غذا
اپنوں سے دور طویل سفر طے کرتے یہ قافلے والے کہاں جا رہے ہیں؟
کوئی تو ان میں تجارتی مقاصد کے تحت گھر بار چھوڑ کر
اللہ کے رزق کی تلاش میں سرگرداں ہے
اور
ان میں ہی کچھ ہیں
جو حصول علم کے متلاشی ہیں
دور بہت دور استاد کا پتہ چلا
تو علم حاصل کرنے قلیل سرمایہ لے کر
اللہ کی آس پر عازم سفر ہوئے
استاد کیا طاقت ہوگی اس ایک حرف میں
کہ
نہ سفر کی مشکلات سے سرمایہ حاصل ہونا ہے
اور
نہ ہی اس علم کی وسعت کا اندازہ ہے
کتنے ماہ و سال لگیں گے
اور
اس دوران دیارِ غیر میں کھانا کہاں سے پہننا اوڑھنا کہاں سے؟
کوئی سوچ مقصد میں حائل نہیں
اور
یوں دنیا بھر سے کبھی سمندروں کے سینے چیرتے ہوئے بحری جہازوں پر
تو کبھی قافلوں کی صورت یہ طالبعلم
اللہ کا دین سیکھنے نکلتے رہے
تاریخ نے بھی ان کی اور ان کے جزبات کی ایسی تکریم کی
ان کی شبانہ روز محنتوں کو محفوظ کر کے
امت محمدیﷺ کے نامور سپوتوں میں
ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شامل کر لیا
کیونکہ
ارادے متزلزل نہیں ہوئے
منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا
کیونکہ
انہی جیسے علم کے دیوانوں نے ہی
تو
دینی فرزانگی کی بنیاد رکھنی تھی
آج استاد کا لفظ سنتی ہوں تو
مجھے اب ماضی بعید کی کٹھنیائیوں میں
دور دور تک کسی کو کھنگالنے کی
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
نہ طویل مصائب سے بھرا سفر ہے اور نہ راستے کی دشواریاں ہیں
نہ گھر والوں سے جدائی ہے اور نہ جان کا خوف ہے
اللہ پاک نے ایسا کرم کیا
کہ استاد جیسی نعمت اور وہ بھی ایک کلک پر
الحمد للہ
کیا گھر کیا سفر ہدایت ہی ہدایت خیر ہی خیر
کون ہیں یہ ؟
استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ
ایک عہد ایک تاریخ ایک مکمل دور
صرف ایک کلک پر ہر ہدایت کی متمنی
ماں بہن بیٹی کیلئے موجود ہیں
اور
آج کی ظلمت میں پھر سے اُسی اندھیر نگری کا دور دورہ ہے
مذہب اسلام کو دقیانوسی کہہ کر اہل کلیسا کی طرح
مساجد مدرسوں تک محدود کر کے
طاغوتی آلہ کار پوری دنیا کے بعد
اب وطن عزیز میں بھرپور انداز سے یلغار کر چکے ہیں
آج
کہنے کو نام نہاد اسلامی سلطنت اور امور سلطنت ؟؟
سوالیہ نشان
ایسے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے
اس مملکت اسلامیہ میں مانگی دعاؤں
کی قبولت پر اپنی رضا کی مہر ایسے لگائی
کہ
استاذہ فرحت ھاشمی صاحبہ نے
الھدیٰ انسٹیوٹ کی بنیاد رکھی
آج یورپ میں یا پاکستان میں کہیں
کوئی بھی دینی کاوش دیکھتے ہیں
تو جو الھدیٰ جا چکے ہیں
وہ لمحہ بھر میں جان لیتے ہیں
کہ
اس نئے ادارے کے پیچھے اصل بنیاد کونسی ہے؟
کسی ادارے کی طرز پر نیا ادارہ قائم کرنا
اُس ہستی کے لئے اللہ کا انتظام ہے
صدقہ جاریہ کا
جس سے اللہ نے بنیادی کام کروا لیا
کیونکہ
خود سے کوئی ادارہ تخلیق کرنا
اس پر سوچنا اس پر دن رات محنت کرنا
اس کا ناک نقشہ درست کرنا
اس کو کسی نومولود کی طرح سجانا سنوارنا
نکھارنا اس کی پرورش ماں جیسی کرنا
اس کی ایک ایک ادا پر نگاہ
اس کی بڑہتی ہوئی عمر کے ساتھ
اس کی کارکردگی کو کینہ توز نگاہوں سے جانچنا
اسلام پر کہیں مفاہمت نہیں
سیدھا درست بے لاگ اسلام نافذ کرنا
بغیر کسی سمجھوتے کے
کیسی کیسی مشکلات آئی ہوں گی
الھدیٰ
کی موجودہ پُرشکوہ عمارت کو
اس یتعمیری سانچے میں ڈھالنے کیلئے
اللہ اور اس کے دین کیلئے کی گئی اس کوشش نے
پاکستان میں تو شعور کی تقسیم کی
زندگیاں بچا لیں رب سے جوڑ دیں
اصل احسان استاذہ کا جو ہم جیسوں پر ہوا
وہ ہے دیار غیر میں بسنے والی مائیں بہنیں بیٹیاں
جو شادی کے بعد جب پاکستان سے روانہ ہوتی ہیں
تو
اکثر خواتین کے گھر کا دین مجہول ہوتا ہے
ضرورت کے وقت کی دعائیں
اور
مشکل کے سجدوں کے سوا
عید اور رمضان کی عبادات کا رسمی انداز سے پتہ ہوتا ہے
نتیجہ
اچھی غذا آزاد ماحول اور آزادی اکثریتی تعداد سے
دین سے دور ہو جاتا ہے
بچوں کی نا مناسب تربیت کی وجہ سے
نسلوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں
ایسے میں دعائیں شروع ہوئیں
اس زمین پر اللہ کی ہدایت اور نور کیلئے
اللہ کی مہربانی استاذہ کی صورت یہاں ہدایت
ایسے پھیلی
سبحان اللہ
عورت جو آج سے پہلے کمزور تھی دبی ہوئی تھی
استاذہ نے اس دبّو جھینپی ہوئی عورت کو
پہلی بار زندہ کیا
شعور کے ساتھ اسے جرآت اظہار قرآن سے دیا
زمانہ جاہلیت کا اختتام ہو چکا
اب وہ حقوق کی مالک ہے
اُسے جنت کی بنیاد قرار دیا
گھر کی رحمت رونق اور کامیابی کا عنوان بتایا
اتنے القابات اس عورت کو ازروئے قرآن سنائے گئے
تو وہ خوشی سے پھولی نہ سمائی
عمر بھر گلے شکوے پر مبنی الفاظ کو استعمال کرنے والی
یہ کمزور نفسیاتی مسائل کا شکار
اب با اعتماد ہو کر مسائل کو حل کرنے کی طاقت پکڑنے لگی
یوں
یہ عورت ماں بہن بیٹی
بدلنے لگی تو گھر محفوظ ہو گیا
یوں اللہ کی رحمتوں نے اپنے حصار میں لے لیا
اور
جب قرآن سے بدلنے والی خواتین پاکستان جائیں
تو
کزنز فرینڈز حیرت سے تعجب سے انہیں دیکھتی ہیں ؟
یہ کیا؟
یورپ سے آئی ہو ایسی دقیانوسی باتیں کر رہی ہو؟
جبکہ
دل ہی دل میں اس کے اعتماد
اور
بدلی ہوئی مثبت تبدیلی کو سراہتی بھی ہیں
اور
ہر وہ باشعور عورت جو استاذہ کی رہنمائی
اور
دن رات کی دعاؤں کے بعد
ملے ہوئے دینی شعور سے باشعور ہو چکی ہے
میٹھی سی مسکراہٹ کے ساتھ آسمان کی طرف تشکرانہ نگاہ ڈالتی
ذات کی صفات کی عادات کی تبدیلی ایسی خاموشی کے ساتھ
کس طرح ممکن تھی
سوائے اس کے
استاذہ جیسی رہنما سامنے ہوں ؟
اللہ کی رحمت ہم پر
استاذہ کی صورت سبحان اللہ موجود ہے

میری رہنما تیرا شکریہ کروں کس زباں سے ادا
میری زندگی کی اندھیری شب میں چراغِ فکر جلا دیا
جاری ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر