اساتذہ کرام کا جائز مقام / FA تک مفت تعلیم

Education

Education

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

ملکی تعمیر و ترقی کے لئے نظام تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ریسرچ سکالرز نے خوب عرق ریزی کے بعد بتایا کہ کچھ حقائق ظاہراور کچھ پوشیدہ ہیں۔پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پیدا شدہ مسائل کا احاطہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کچھ مسائل ایسے ہیں جو شاید ہی کسی پالیسی میکر کے ادراک میں پہلے کبھی آئے ہوں ۔پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مسائل پر گورنمنٹ کے لیے کام کرنا کوئی مشکل بھی نہیں اور قوم کے معماروں کی اس طرح حق تلفی بھی نہ ہو سکے گئی۔ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی روشنی میں 2018 کے مطابق صوبہ بھر میں طلباء و طالبات کے کل 6738 ہائی سکولز ہیں جن میں کل 442395 سٹوڈنٹس زیر تعلیم ہیں.اور ہر سال 10٪ اضافہ بھی ہو رہا ہے. ہائی سکولز میں عموماً کلاسز 6th سے 10th تک ہوتی ہیں. اور تقریباً 4 لاکھ طلباء اور طالبات ہرسال دہم کا امتحان پاس کر کے سرکاری اداروں میں داخلہ لینے کو کوشش کرتے ہیں. صوبہ بھر کے سرکاری ادارے پبلک ہائر سکینڈری سکولز صرف757(تعداد سکول انفارمیشن سسٹم کے مطابق) اور 9 ڈویژنوں کے مجموعی پبلک کالز 566 (ہائیر ایجوکیشن کی ویب سائٹ کے مطابق) یعنی سرکاری طور پر انٹرمیڈیٹ کے لیے پورے صوبے میں کل1323 ادارے ہیں. یعنی 6738 سرکاری اداروں سے میٹرک پاس کرنے والے 2 لاکھ غریب عوام کے بچوں کے لیے صرف 1323 ادارے ہیں.اگر غور و غوض کیا جائے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ پبلک اداروں سے 6738 اداروں سیگریڈ 10 سے فارغ ہونے والے سالانہ 2لاکھ سے ذائد طلباء و طالبات کیلیے صرف 1323 ادارے ہیں. پبلک اداروں میں عموماً مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں. گریڈ 10 تک تو تعلیم 2006 سے بکل فری ہے مگر غریب عوام کے بچوں کے لیے گریڈ 10 کے بعد نہ تو مفت تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں اور نہ ہی اس تعداد کے لیے سرکاری ادارے موجود ہیں۔

لاکھوں طلباء و طالبات غربت کی وجہ سے میٹرک کے بعد داخلہ نہی لے سکتے اور تعلیم ترک کر کے بیروزگاروں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ کر رہے ہیںاور منشیات ، چوری، ڈکیتی جیسے جرائم کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں ۔اب بات کرتے ہیں وہ مسائل جو ہم نظر نہیں آتے مگر تعلیمی میدان میںہم کو آگے بھڑنے سے روکتے ہیں مثلاً سکول انفارمیشن سسٹم کے مطابق تقریباً 25000 ایم فل اور 3000 کے قریب پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل اساتذہ کرام سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب اپنی پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں. ان میں 95٪ اساتذہ کرام ہائی سکولز میں ہیں. اور باقی کے 5٪ ایڈمنسٹریٹو پوسٹس یعنی سی ای اوز، ڈی ای اوز اور ہیڈ ماسٹرز وغیرہ پر کام کر ہے ہیںجبکہ سکول انفارمیشن سسٹم کے مطابق تقریباً 80 فیصد ہائی سکولز میں طلباء و طالبات کی تعداد 800 سے ذائد ہے اور حکومت نان سیلری بجٹ کی مد میں تمام سکولز کو کوارٹرلی کروڑوں روپے مہیا کیئے جارہے ہیں.نیزتمام ہائی سکولز سے اگر کلاسز اور کلاس ورمز کی تعداد کا تخمینہ لگایا جائے تو تقریباً 80 فیصد سکولز میں کلاسز سے ذائد رومز موجود ہیں. اور تقریباً 90 فیصد ہائی سکولز میں ہال روم بھی موجود ہیں.سکول انفارمیشن سسٹم سے چیک کریں تو آپ کو پتا چلے گا کہ 95 فیصد سے ذائد ہائی سکولز کا ذاتی رقبہ 20 کنال سے 5 ایکٹر ہے بلکہ کچھ اراروں کا رقبہ اس سے بھی ذائد ہے. تمام ہائی سکولز متعلقہ ڈویژنل بورڈز سے سکینڈری اور ہائر سکینڈری کی سطع تک کے لیے الحاق شدہ ہیں.جیسا کہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے 2020 سے تمام کالجز میں بی ایس پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے. اور ایچ ای سی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا ہے.اس طرح انٹرمیڈیٹ کی کلاسز کے لے سرکاری اداروں میں گنجائش مزید کم ہو جائے گی.

محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران وزیر تعلیم اور وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ پبلک ہائی سکولز کے ساڑے چار لاکھ طلباء اور طالبات کے لیے ادارے نہیں ہیں.اور حکومت 2006 کے بعد اب تک غریب عوام کے بچوں کے لیے کوئی بڑا تعلیمی ریلیف نہیں دے سکی.آپ کی توجہ کے لئے دو چیزیں ہیں ایک بڑے ہائی سکولز اور دوسرا تمام ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتزہ کرام.( اول ) اگر تمام ہائی سکولز جن کی تعداد 800 یا زائد ہے اور رقبہ 4 کنال تک ہے تو اس کو فوراً آپ گریڈ کر کے ہائر سکینڈری سکول کا درجہ دے دیا جائے.نئے آپ گریڈ ہونے والے سکولز میں اس سال ایک یا دو اضافی کلاس رومز کی ضرورت ہوگی. جوکہ تقریباً نئے آپ گریڈ ہونے والے تمام سکولز میں پہلے سے موجود ہیں. کسی سکول میں یہ گنجائش نہیں تو این ایس بی کی مد سے یہ ضرورت پوری کی جا سکتی ہے.

ان نئے آپ گریڈ ہونے والے سکولز میں تمام ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ اساتزہ کو گریڈ 17 اور 18 دے کر پہلے سے موجود ایم فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ کو یہ فریضہ سونپا جا سکتا ہے۔( دوئم )گورنمنٹ آف پنجاب کو اس پروجیکٹ کے لیے کوئی نیا تعلیمی فنڈ نہی دینا پڑے گااور اس کے لیے نئے اساتزہ کی بھرتیوں کی ضرورت بھی نہی ہے.

( سوئم )ان تمام اداروں کی متعلقہ بورڈ سے انٹرمیڈیٹ کے لیے نئی رجسٹریشن یا اجازت کی ضرورت بھی نہیں ہے
( چہارم ) پرائیویٹ اداروں کے بر عکس پبلک اداروں میں ہائی کوالیفائیڈ اسٹاف خدمات سرانجام دینے کو تیار ہے ان کی تربیت کی بھی ضرورت پیش نہی آئے گی. یاد رہے انٹرمیڈیٹ کی سطح پر تعلیم کے لیے سبجیکٹ میں ماسٹر ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ آپ کے پاس ایم فل اور پی ایچ پی ڈی ہیں ۔ ان سے استفادہ حاصل کیا جائے ۔اس طرح سرکاری سکولز سے گریڈ 10 سے پاس ہونے والے ساڑیچار لاکھ سے ذائد غریب طلباء اور طالبات کے لیے انٹرمیڈیٹ میں داخلہ کیلے سرکاری ادارے موجود ہوں گے.۔ پنجاب گورنمنٹ 2006 کے بعد سب سے بڑا اصلاحاتی تعلیمی نظام دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جس سے آپ پنجاب بھر میں بنیادی ،لازمی اور فری تعلیم میٹرک سے بڑھا کر انٹرمیڈیٹ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا