لالہ زار

Pakistan

Pakistan

سرخ و سفید کے جلوئوں میں
لیلی وطن نکھری ہے
آنسوں کی یہ لڑی ہے

سسکیوں کی پکار جاری ہے
ابھی لٹنا، ابھی تڑپنا
ابھی بارود کی بُو آنی ہے

ابھی اک ماں روئی ہے
ابھی بہت سی مائوں نے رونا ہے
میرے وطن کی فطرت نرالی ہے

کل بھی خون کی ہولی تھی
آج بھی خون کی برسات ہونی ہے
قربانی ! قربانی !

مادر زمین کا نغمہ ہے
ہر شخص کے بعد
ہر شخص کی باری ہے

کبھی پنجابی، کبھی بلوچی
کبھی پختون، کبھی سندھی
اور کبھی سرائیکی کی باری ہے

حاکموں کے بھیس میں
غلام بیٹھے ہیں
غلام ابن غلام بیٹھے ہیں

یہاں جھولی، وہاں جھولی
کبھی کشکول ، کبھی دامن پھیلانا ہے
غریبوں کے سودے

امیروں میں کرنے ہیں
کبھی لندن، کبھی پیرس
کبھی امریکہ اور کبھی اسرائیل میں بکتے ہیں۔

میرے ملک کے حاکم
ہر دام میں بکتے ہیں
کون کہتا ہے مہنگائی ہے، مہنگائی ہے؟

میں دکھاتا ہوں
یہ حکومت کے کارندے
کتنے سستے بکتے ہیں

وطن کی ناموس
ماںکی عزت
اور بہنوںکی چادر کے

کیسے سودے ہوتے ہیں
میرے وطن کے ایوانوں میں
ہر شخص کی بکِری ہوتی ہے

بڑے نامی گرامی
گورے خریدار ہوتے ہیں
بڑے کالے جواری

دکاندار ہوتے ہیں
اشیائے خوردو نوشت میں
کبھی عزت، کبھی عظمت

کبھی وطن، کبھی ماں
اور کبھی بہن ہوتی ہے
اور باقی جو، رہے

استعمال مسلسل کے لیے
وہ میرے ملک کے
بچے اور جوان ہوتے ہیں

میرے وطن میں اک آندھی آئی ہے
بہت کالی رات آئی ہے
کب فلک پر سورج ابھرتا ہے

اس انتظار میں برسوں گزرے ہیں
برسوں میں کتنے برس کے
لوگ گزرے ہیں

نہ جانے کتنے لال اٹھے ہیں
کتنی مائوں نے روتے روتے
آنکھیں موندھی ہیں

کون کھائے گا
گورِِِِِِ غریباں پرترس !
کون جاگے گا

میرے ملک کی زبو حالی پر
جو اک لالہ زار ہوتا تھا
وہ اک لالہ جگر ہوجائے گا
اور پھر اک قصّہ تمام ہوجائے گا۔۔۔

شاعر: عبدالغنی شاہ زیب۔پوّن