کیوں اعتبار نہیں ؟

Teenagers

Teenagers

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس

کیا وجہ ہے آجکل کی اولاد اور خاص طور پر ٹین ایج بچے آخر اپنے والدین پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قول و فعل پر غور کیجیئے ۔ یاد کیجیئے کیا آپ اپنے بچوں سے وعدے کر کے انہیں توڑتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنی باتوں سے مکرتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں پر کسی بھی دوسرے کو خصوصا اپنے بھائی بہنوں کے بچوں کو ترجیح دیتے رہے ہیں ؟

کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کی کوئی خوشی کا یا کوئی خاص موقع کسی دوسرے کے لیئے ضائع یا نظر انداز کیا ہے؟

کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کی کوئی چیز اس کو بتائے بغیر اٹھا کر اپنے کسی دوست یا عزیز یا اسکے بچے کو دی ہے؟

یہ سب باتیں اور اس جیسی ہی دوسری مختلف باتیں جنہیں آپ شاید معمولی سمجھ سکتے ہوں یا آپ کے لیئے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتی ہوں لیکن ایک بچہ جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے دنیا میں آیا ہے اس کا ہر منٹ اور ہر لمحہ صرف آپ پر انحصار کرتا ہے ۔ جس کے لیئے دنیا کی ہر بات ہر چیز نئی ہے ۔ ہر کام اس کے لیئے پہلی بار ہو رہا ہے ۔ جس کی دنیا ہی صرف آپ ہیں۔ اس کے لیئے یہ سوالات اس نتیجے پر پہنچنے والا امتحانی پرچہ ہیں ۔ جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے لیئے قابل اعتبار ہیں یا نہیں ہیں۔

آپ اسے اپنے محافظ محسوس ہونگے یا پھر غاصب۔ اس کا نتیجہ بہرحال دو ہی صورتوں میں سامنے آیا ہے یا پاس یا فیل۔ تیسری کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے ۔آپ کا والدین بننا ہی آپ کو اس امتحان گاہ میں بٹھانے کا آغاز ہوا کرتا ہے۔ یہ امتحان کم از کم 18 سال پر محیط ہونے جا رہا ہے ۔ اس وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیجیئے۔ یہ وقت آپ کے اور آپ کے بچے کے بیچ پل بننے جا رہا ہے ۔ اور آپ کبھی نہیں چاپیں گے کہ یہ پل اتنا کمزور ہو کہ اس پر پاوں رکھتے ہوئے آپ کا دل دہلتا رہے کہ اب ٹوٹا کہ کب ٹوٹا۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ آپ پر اعتبار کرے تو خود کو قابل اعتبار ثابت کیجیئے ۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں اس کے وجود کو اور اس بات کو تسلیم کیجیئے کہ اسکی اپنی ایک مکمل شخصیت، سوچ اور ذات ہے ۔ اس کی پرورش آپ کا فرض اور اس بچے کا آپ پر پہلا حق ہے۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق اسے زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہوئے پروان چڑہایئے ۔ اس سے کبھی کوئی وعدہ اپنی ہمت سے بڑھ کر مت کیجیئے۔ اسے حفاظت دیجیئے لیکن اسے کاغذ کہ کشتی مت بنایئے جو پانی کے دھاروں میں ہی ملیامیٹ ہو جائے ۔ اسے سخت جان بنایئے یہ بات سمجھاتے ہوئے کہ میرے اس عمل سے تمہیں گزارنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے۔

اپنی مالی حالت کو بچوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کیجیئے۔ جو ہے اس میں خوش رہنا سکھایئے۔ ان کی کوئی بھی بات راز یا چیز جو آپ کے پاس ہے اسے اس کی امانت سمجھ کر ایمانداری کیساتھ محفوظ رکھیئے۔ اس سے پوچھے بنا بلکہ اس کی رضامندی کے بنا اس کی کوئی چیز اس کے ہی کسی بہن بھائی کو بھی مت دیجیئے۔ اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے بچوں کو بار بار اس کے سامنے رول ماڈل بنا کر اسکے سامنے پیش کرنے سے اجتناب برتیں کیونکہ آپ اصل میں ان کا وہی روپ دیکھ رہے ہیں جو وہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے آپ کا بچہ اس کے ہم عمر ہونے یا دوست ہونے کے سبب وہ اصلیت جانتا ہو جس کے بارے میں آپ سوچ بھی نہ سکتے ہوں۔

اس لیئے آپ کا اسکے ساتھ اپنے بچے کا تقابل آپ کے بچے کے سامنے آپ کی ہی سمجھداری پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے اور وہ آپ کی صلاح لینا غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔ اس کی چیزیں اس کی مرضی کے بغیر کسی کو دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ آپ اس کی حفاظت کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ یہی وجوہات ہیں جس کے سبب اس عمر کے بچے اپنے والدین سے خائف رہتے ہیں یا پھر ان سے اپنے معاملات بانٹنا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر رشتے میں خود پر اعتبار جیتنا پڑتا ہے اور خاص طور پر اپنے بچوں کا اعتبار جیتنا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس